پاکستان

مسلم لیگ (ق) کی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف درخواست میں فریق بننے کی استدعا

حمزہ شہباز غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہمارے اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے تھے، مسلم لیگ (ق)

پاکستان مسلم لیگ (ق) نے لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کی درخواست میں فریق بننے اور اپنے اراکین صوبائی اسمبلی کی مبینہ حراست کے خلاف درخواست دائر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حمزہ شہباز نے دو روز قبل پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے صوبے کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس نہ بلانے اور ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات واپس لینے کے اقدام کو چیلنج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ایڈووکیٹ عامر سعید راون نے مسلم لیگ (ق) کے سیکریٹری جنرل کامل علی آغا کی جانب سے درخواست دائر کرتے ہوئے الزام لگایا گیا تھا کہ اپوزیشن نے ان کی پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کو ایک ہوٹل میں یرغمال بنا رکھا ہے اور انہیں کسی سے، یہاں تک کہ ان کے خاندان کے افراد سے بھی ملنے سے روک دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں لیکن مدعا علیہ (حمزہ شہباز) دوسروں کے ساتھ مل کر غیر قانونی اور آئین کے خلاف ان کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: چیف سیکریٹری، آئی جی پنجاب کے تقرر و تبادلے کے خلاف حمزہ شہباز عدالت پہنچ گئے

ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار مسلم لیگ (ق) کیس میں ایک ضروری فریق تھی لیکن درخواست گزار (حمزہ شہباز) نے عدالت میں زیر التوا درخواست میں انہیں فریق نہیں بنایا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست دائر کرنے کی اجازت دی جائے اور حمزہ شہباز کی زیر التوا درخواست میں درخواست گزار فریق مسلم لیگ (ق) کو شامل کیا جائے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں صوبے کے سرکاری افسران کے تقرر و تبادلے کے خلاف کے خلاف بھی درخواست دائر کی تھی۔

وزیر اعلیٰ کے امیدوار نے عبوری وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے صوبائی چیف سیکریٹری اور پولیس چیف کے تقرر و تبادلے کرنے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

حمزہ شہباز نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب نہ کرانے پر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف اپنی پہلے سے زیر التوا مرکزی درخواست میں سول متفرق درخواست کے ذریعے تبادلوں کو چیلنج کیا۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے درخواست پر اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر کو نوٹس

ایڈووکیٹ خالد اسحٰق کے توسط سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عثمان بزدار کے استعفے کے بعد صوبے میں کوئی صوبائی کابینہ یا حکومت موجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کے چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) جیسے افسران کا کوئی تبادلہ اور تعیناتی صوبائی حکومت کی مشاورت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق انتخابات کے دوران آئی جی اور چیف سیکریٹری کے تقرر و تبادلے نہیں کیے جاسکتے۔

عدالت سے استدعا کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے عمل کے دوران چیف سیکریٹری اور آئی جی پی کی غیر قانونی تقرریوں اور تبادلوں سے حکومت کو روکے۔

دونوں درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس محمد امیر بھٹی پیر کو مرکزی درخواست کے ساتھ کریں گے جس میں اسپیکر اور صوبائی اسمبلی کے سیکریٹری کو پہلے ہی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے انتخاب کا مکمل ریکارڈ پیش کریں۔

'پرانے پاکستان میں خوش آمدید': عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر رد عمل

امریکا نے وزیراعظم عمران خان کے حکومت گرانے کی سازش کے الزامات مسترد کردیے

پورا سال دستیاب یہ پھل روزانہ کھانا ہڈیوں کو مضبوط بنائے