ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دینے کےخلاف نظرثانی درخواست سپریم کورٹ کو ارسال
حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے ازخود نوٹس کیس پر فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی درخواست عدالت عظمیٰ کو ارسال کردی۔
عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی لارجر بینچ کے 7 اپریل 2022 کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست ڈاکٹر بابر اعوان اور ایڈووکیٹ محمد اظہر صدیق کی جانب سے تیار کی گئی ہے۔
نظر ثانی درخواست ارسال کرنے والے وکیل اظہر صدیق نے ڈان ڈاٹ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ درخواست عدالت عظمیٰ کو ارسال کردی گئی ہے اور دفتر میں موجود ہے، تاہم اس پر کارروائی نہیں ہو سکی کیونکہ رمضان کے اوقات کی وجہ سے دفاتر جلد بند ہوجاتے ہیں، آئندہ آنے والے ورکنگ ڈے پر اس درخواست پر کارروائی کی جائے گی۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے 5 رکنی بینچ کے 7 اپریل کے فیصلے پر نظرِثانی کی استدعا کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار، قومی اسمبلی بحال
درخواست میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ بار کونسل کو فریق بنایا گیا ہے۔
پٹیشن میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ براہ کرم 7 اپریل کے متنازع حکم نامے کا جائزہ لیں اور اس حکم کو واپس لیں جس میں کچھ غلطیاں نمایاں ہیں اور ساتھ ہی اس حکم کا عمل معطل کردیا جائے۔
عدالت کے احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہ آج کی قومی اسمبلی کی کارروائی کیسے چلائی جانی چاہیے، درخواست میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کا بینچ آئین کے تحت آئینی عہدوں پر فائز افراد کو آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے براہ راست حکم نہیں دے سکتا۔
تیار کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کو کیسے آگے بڑھانا چاہیے اس کے لیے ٹائم ٹیبل دینا اور اسپیکر کو کسی خاص طریقے سے کام کرنے کا حکم دینا ایوان زیریں کے معاملات میں مداخلت اور آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اس بات کو نظر انداز کیا ہے کہ ایوان کی کارروائی سے متعلق پارلیمنٹ خودمختار اور بالا دست ہے اور سپریم کورٹ یا کوئی بھی دوسری عدالت کے دائرہ اختیار کے قابل نہیں ہے۔
درخواست میں ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کے فیصلے کا مقصد آئین کے آرٹیکل 5 کو نافذ کرنا تھا اور اس لیے عدالت کے فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ 7 اپریل 2022 کو سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تمام ججز کا متفقہ فیصلہ ہے، ہم نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ غیر آئینی تھی جبکہ وزیر اعظم صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے۔
عدالت عظمیٰ نے قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے اسپیکر کو ایوان زیریں کا اجلاس 9 اپریل بروز ہفتہ صبح ساڑھے 10 بجے تک بلانے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کی ہدایت کی تھی۔
چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ووٹنگ والے دن کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں فوری نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا جبکہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتے رہے گی۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم، صدر کے تمام احکامات سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط ہونگے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے صدر مملکت کے نگران حکومت کے احکامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا، ساتھ میں حکم دیا تھا کہ موجودہ حکم نامے سے آرٹیکل 63 کی کارروائی متاثر نہیں ہوگی۔
اسپیکر رولنگ کیس کا فیصلہ پانچ صفر سے متفقہ طور پر سنایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ: ’اب عمران خان کے اگلے قدم کا انتظار کریں‘
تاہم ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں ہونے والے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہیں وقفہ سوالات میں بات کرتے ہوئے وزیر قانون فواد چوہدری کی جانب سے قرارداد پر سنگین اعتراضات اٹھائے گئے۔
فواد چوہدری نے اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کو بیرونِ ملک سے پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نگران حکومت کا قیام کیس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، جلد نمٹانا چاہتے ہیں، چیف جسٹس
ایوانِ زیریں کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا تھا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اسپیکر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے جو فیصلہ کیا اس کے بعد میں صدر مملکت کو تجویز بھیج دی ہے کہ اسمبلیاں تحلیل کریں ہم جمہوری طریقے سے عوام میں جائیں اور عوام فیصلہ کرے کہ وہ کس کو چاہتے ہیں۔
بعد ازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور کرلی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ہوا میں فیصلہ نہیں دے سکتے، تمام سیاسی جماعتوں کا احترام ہے، چیف جسٹس
ایک ہی روز کے دوران صورتحال میں تیزی سے رونما ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد رات گئے صدر مملکت عارف علوی نے ایک فرمان جاری کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ قومی اسمبلی، کابینہ کے تحلیل اور وزیر اعظم کی سبکدوشی کے بعد نگراں وزیر اعظم کے تقرر تک عمران خان اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔
قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لیا تھا۔
ازخود نوٹس کے علاوہ مختلف پارٹیوں کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن پر سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔