ترکی: جمال خاشقجی قتل کیس کی سماعت معطل
ترکی کی ایک عدالت نے واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث 26 سعودی شہریوں کی عدم موجودگی میں مقدمے کی سماعت معطل کرنے اور کیس کو سعودی عرب منتقل کرنے کا فیصلہ سنادیا۔
خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے انتباہ کے باوجود سامنے آیا ہے جن کے مطابق کیس کو سعودی عرب کے حوالے کرنے سے اس قتل پر پردہ ڈال دیا جائے گا، جس سے متعلق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر شبہ ظاہر کیا گیا۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ترکی، اقتصادی بدحالی کا شکار ہے اور سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کی منگیتر نے سعودی ولی عہد کے خلاف امریکا میں مقدمہ دائر کردیا
کچھ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریاض نے ترکی کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کو ترکی کی جانب سے سعودی شہریوں کے خلاف مقدمہ خارج کرنے سے مشروط کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے اس مقدمے کے پراسیکیوٹر نے یہ استدلال کرتے ہوئے کیس کو سعودی عرب منتقل کرنے کی سفارش کی تھی کہ ترکی میں مقدمے کی سماعت بے نتیجہ رہے گی۔
ترکی کے وزیر برائے انصاف نے اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر ترکی کی عدالت سعودی عرب میں ہونے والی کارروائی کے نتائج سے مطمئن نہ ہوئی تو ترکی میں مقدمے کی سماعت دوبارہ شروع ہو گی، تاہم یہ واضح نہیں کہ کیا سعودی عرب ایک نیا مقدمہ شروع کرے گا؟
مزید پڑھیں: سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کردی
انسانی حقوق کے علمبرداروں نے ترکی پر زور دیا تھا کہ وہ مقدمہ سعودی عرب منتقل نہ کرے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ ’اپنی سرزمین پر ہونے والے قتل کے کیس کو منتقل کرنے سے، ترکی جان بوجھ کر اور مرضی سے اس کیس کو اُن لوگوں کے ہاتھ میں واپس بھیج دے گا جو اس کے ذمہ دار تھے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ درحقیقت سعودی نظامِ عدالت بارہا ترک پراسیکیوٹر کے ساتھ تعاون کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ واضح ہے کہ سعودی عدالت انصاف نہیں دے سکتی۔
یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: کیا نئی امریکی حکومت ولی عہد کو قاتل سمجھتی ہے؟
اگنیس کالمارڈ نے سوال کیا کہ ’ترکی کے اعلان کردہ اس عزم کو کیا ہوا جس کے مطابق اس بہیمانہ قتل کے لیے انصاف کی بالادستی ہونی چاہیے اور یہ کیس کبھی بھی سیاسی سمجھوتے اور مفادات کا نشانہ نہیں بنے گا؟‘
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ سعودی عرب میں عدالتی آزادی کے مکمل فقدان، خاشقجی کے قتل میں سعودی حکومت کے کردار، ماضی میں انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اس کی کوششوں اور بنیادی معیارات کو پورا کرنے میں ناکام ایک مجرمانہ نظام انصاف کی موجودگی میں سعودی عرب میں خاشقجی کیس کے منصفانہ ٹرائل کے امکانات صفر کے قریب ہیں۔
یاد رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے والے امریکی رہائشی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں اسوقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ اپنی ترک منگیتر ہیٹیس سینگیز سے شادی کے لیے درکار دستاویزات جمع کرانے کے لیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں نے والد کے قاتلوں کو معاف کردیا
ترک حکام کا الزام ہے کہ سعودی ولی عہد کے بارے میں تنقیدی مضمون لکھنے والے جمال خاشقجی کو استنبول بھیجے گئے سعودی ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے سعودی قونصل خانے کے اندر قتل کیا اور پھر ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے، جمال خاشقجی کی لاش کی باقیات اب تک نہیں ملیں۔
اس ٹیم میں فرانزک ڈاکٹر، انٹیلی جنس اور سیکیورٹی افسران سمیت وہ افراد شامل تھے جو سعودی ولی عہد کے دفتر کے لیے کام کرتے تھے۔