دنیا

امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا کا ہائپرسونک میزائل پروگرام پر تعاون کا اعلان

امریکی صدر، برطانوی اور آسٹریلوی وزرائے اعظم نے ایک بیان میں ہائپرسونکس، الیکٹرانک جنگی صلاحیت پر تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔

امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہائپرسونک میزائل اور دفاعی صلاحیت پر تعاون شروع کریں گے جبکہ حریف روس اور چین جدید ٹیکنالوجی میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی خبر کے مطابق تینوں ممالک نے کہا کہ وہ اپنے حالیہ دفاعی اتحاد کو توسیع دیتے ہوئے ہائپرسونکس ٹیکنالوجی پر کام کریں گے، 'اے یو کے یو ایس' دفاعی اتحاد ہے جس کے تحت چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں سے لیس کیا جائے گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں ہائپرسونکس اور انسداد ہائپرسونکس، اور الیکٹرانک جنگی صلاحیتوں پر نئے سہ فریقی تعاون کے عزم کا اظہار کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:چین امریکا جنگ اور بنتے بگڑتے بین الاقوامی اتحاد

ہائپرسونک میزائل آواز کی رفتار سے 5گنا سے زیادہ تیزی سے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں، ان میزائلوں کو درران پرواز بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے، ان میزائلوں کو ٹریک کرنا اور روکنا روایتی میزائلوں کے مقابلے میں کافی مشکل ہوتا ہے، یہ میزائل روایتی یا جوہری وار ہیڈ بھی لے جا سکتا ہے۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہائپرسونکس اور متعلقہ ٹیکنالوجیز پر تعاون 'آکس' اتحاد کاحصہ ہے، لیکن رہنماؤں کے ہائپرسونک پلان کی مزید تفصیلات کیا ہیں، اس سے متعلق زیادہ تفصیلات فراہم کی نہیں کی گئیں۔

آسٹریلوی اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک دفاعی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ جاری کیے گئے اس بیان میں اس معاہدے اور عزم سے متعلق نیا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:جوہری آبدوز تنازع: فرانس نے برطانیہ سے ’طے شدہ مذاکرات‘ منسوخ کردیے

دفاعی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا اور امریکا ہائپرسونکس ٹیکنالوجی پر پہلے ہی مل کر کام کر رہے تھے جبکہ تعاون کا یہ عزم برطانیہ کے ساتھ تعاون کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔

آسٹریلیا نے دسمبر 2020 میں اعلان کیا تھا کہ وہ 'اسکائی فائر' پروگرام کے تحت ہائپر سونک ہتھیاروں کی تیاری پر امریکا کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

یو ایس کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق روس ہائپرسونکس ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے جبکہ چین بھی انتہائی تیزی سے ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کام کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آبدوز تنازع: جو بائیڈن نے ایمانوئل میکرون سے جلد مذاکرات کی درخواست کی ہے، فرانس

گزشتہ ماہ روس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے یوکرین میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے نئے کنزال ہائپرسونک میزائل کو دو بار فائر کیا جبکہ روس نے کئی کامیاب تجربات کا دعویٰ بھی کیا، جس میں زیرکن آبدوز سے زرکون ہائپر سونک میزائل فائر کرنا بھی شامل ہے۔

پینٹاگون کے اعلیٰ جنرل کی جانب سے تصدیق شدہ میڈیا رپورٹس کے مطابق چین نے گزشتہ سال زمین کے گرد چکر لگانے والے جوہری صلاحیت کے حامل ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا تھا۔

اس تجربے کے بارے میں چین نے کہا تھا کہ یہ ایک معمول کا اسپیس کرافٹ کا تجربہ ہے۔

دوسری جانب شمالی کوریا نے جنوری میں دو ہائپرسونک میزائل کے تجربات کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا کا ہائپرسونک میزائل کا 'کامیاب' تجربہ

امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا نے گزشتہ ستمبر میں 'آکس' نامی دفاعی اتحاد تشکیل دیا تھا، تینوں ممالک نے اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد تشکیل دیا تھا کہ وہ آسٹریلیا کو جوہری طاقت سے چلنے والے، روایتی طور پر مسلح آبدوزوں کے بیڑے کی تعمیر کے لیے ٹیکنالوجی فراہم کرے گا، جس سے آسٹریلیا کو بحرالکاہل کے علاقے میں زیادہ سے زیادہ نگرانی کا موقع اور رسائی ملے گی۔

تینوں ممالک کی جانب سے اس معاہدے کے اعلان کے نتیجے کے طور پر، آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ کئی ارب ڈالر مالیت کا آبدوز کا معاہدہ ختم کر دیا تھا۔

تینوں ممالک کے رہنماؤں نے جاری بیان میں کہا کہ وہ آسٹریلوی آبدوز پروگرام پر پیش رفت سے مطمئن ہیں۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کووڈ پابندیوں کے بغیر کھیلی جاسکتی ہے، رمیزراجا

گلوکارہ عروج آفتاب کا گریمی ایوارڈز کیلئے پاکستانی ڈیزائنر کے لباس کا انتخاب

حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ 'منتخب' ہوگئے ہیں، اپوزیشن کا دعویٰ