ہمارے دباؤ میں آکر کل حکومت نے خودکشی کرلی، بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عمران اور اس کی حکومت ہماری سیاسی بندوق کی نوک پر تھی جسے فائر کر کے ہمیں اس کا خاتمہ کرنا تھا لیکن کل حکومت نے خود بندوق اٹھا کر خودکشی کرلی۔
انہوں نے کہا کہ ایسا ہم سب کے دباؤ، پارلیمان کے باہر جدوجہد اور ہم سب نے مل کر جو 3 ماہ سے اس حکومت کا جینا حرام کر رکھا تھا اس کی وجہ سے ممکن ہوا۔
اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر اعظم کو ہٹانے کا ایک ہی آئینی و جمہوری طریقہ ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد ہے، وزیر اعظم نے اپنی انا کی وجہ سے عدم اعتماد کو آئین توڑ کر سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو اندازہ نہیں ہے کہ ہوا کیا ہے، ہم سب جمہوریت پسند لوگ ہیں، پاکستان کے آئین کا دفاع کرنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کے ’خود ساختہ‘ اجلاس میں تحریک عدم اعتماد منظور
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جمہوریت اور آئین کا تحفظ کرنے والے ہیں، کل وزیر اعظم ایک آئینی اور جمہوری طریقے سے اسی نتیجے پر آسکتا تھا، ہماری تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے پہلے وہ استعفیٰ دیتے تو بھی آئینی طریقہ ہوتا یا تحریک پر ووٹنگ کرا کر حکومت چلی جاتی۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیکن کل یہ ہوا کہ وزیر اعظم، صدر پاکستان، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر نے ملی بھگت سے آئین توڑ کر عمران خان کی انا کو سنبھالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت، پاکستان کے عوام فیصلہ کریں کہ عمران خان کی انا زیادہ اہم ہے یا دستور پاکستان، قومی اسمبلی، عدالت عظمیٰ زیادہ اہم ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بین الاقوامی سازش اور تحریک عدم اعتماد 2 علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، اگر ہم بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں کوئی پارلیمانی کمیشن تشکیل دے کر ہمیں سزا دلا دیں، تختہ دار پر چڑھانا ہے تو چڑھادیں لیکن عدم اعتماد کا عمل مکمل ہونے دیں، جمہوریت کا تسلسل چلنے دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اور اعلیٰ عدلیہ قومی اسمبلی میں آئین پاکستان لاگو نہیں کر سکتے تو باقی پاکستان میں بھی لاگو نہیں کرسکتے، باقی ہم سب خوش ہیں کہ عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔
مزید پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ: متحدہ اپوزیشن کا سپریم کورٹ سے فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ
انہوں نے کہا ہے کہ عدالت سے ہماری درخواست ہے کہ 'عمران خان کی بغاوت' پر سماعت کے لیے ایک فل کورٹ بینچ فوری تشکیل دیا جائے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ ضیاالحق، مشرف کی بغاوت نہیں روک سکی لیکن اعلیٰ عدلیہ سے ہمیں امید ہے، ہماری درخواست ہے کہ عمران خان کی بغاوت کو روکے اور عمران خان کے اس اقدام پر آپ کے فیصلے سے ملک کی قسمت لکھی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ فیصلہ سنائے گا کہ کیا ہمارا آئین محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے یا ہمارے اسلامی، جمہوری، وفاقی نظام کو جوڑنے والی دستاویز ہے، یہ بہت ضروری ہے، ہم آئین کا دفاع کرتے رہیں گے۔
دھمکی کے بعد امریکی عہدیدار کا شکریہ سمجھ سے باہر ہے، شہباز شریف
اس موقع پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ کل کا دن پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا کہ جب عمران نیازی نے سویلین مارشل لا نافذ کیا۔
انہوں نے کہا کہ 3 نومبر کو جنرل (ر) مشرف نے بھی یہی آمرانہ اور فسطائی اقدام اٹھایا تھا، عمران خان اور اس کے حواریوں نے آئین کی واضح خلاف ورزی، آئین شکنی کی ہے کیوں کہ 24 مارچ کو اسپیکر نے ایوان کی منشا کے مطابق عدم اعتماد کی قرارداد کو ملتوی کیا، اگر کوئی اعتراض تھا تو 24 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک کو لیو گرانٹ کیوں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کا پورا ایک نظام ہے، اس کی ایک قانونی برانچ ہوتی ہے، اسپیکر تمام مراحل طے کرکے ضوابط کے مطابق کسی ایجنڈا آئٹم کو ایوان میں پیش کرواتا ہے وگرنہ اسے اپنے دفتر میں ہی مسترد کر دیتا ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر کوئی چیز آرٹیکل 5 کی زمرے میں آرہی تھی تو اسپیکر نے اسی قرارداد کو ایوان کی منشا اور اجازت کے بعد لیو کیوں گرانٹ کی، لہٰذا اس کے بعد کسی قسم کا ردوبدل ممکن نہیں تھا اور تحریک کو ہر صورت گزشتہ روز ووٹنگ کے لیے پیش کیا جانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عدالتوں کو یہ فیصلے نہیں کرنے چاہئیں، فواد چوہدری
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز عمران خان نیازی نے ڈپٹی اسپیکر کو اپنا آلہ کار بنایا اور جب ایوان میں بیٹھے تو تلاوت قرآن پاک کے بعد آناً فاناً ایک وزیر کو فلور دیا جنہوں نے نہ جانے الابلا کہا اور اس پر اسپیکر نے ایک لکھا ہوا کاغذ پڑھا اور آرٹیکل 5 کا بہانہ بنا کر اس قراداد کو ووٹنگ سے ہٹا دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اعتراض تھا یا امریکا سے کوئی کیبل آئی تھی تو 8 مارچ کو جب اسے ایوان میں جمع کرایا گیا تھا اس وقت سے لے کر 24 مارچ تک جب اسے قرارداد کو لیو گرانٹ کرنے کے لیے پیش کیا گیا تھا تو حکومت نے 24 مارچ کو کیوں اعتراض نہیں اٹھایا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ یہ عمران نیازی اور ان کے حواری اس شکست کا سامنا نہیں کرسکتے تھے جو انہیں ہونے جارہی تھی اس لیے انہوں نے جمہوریت کو مسخ کیا، آئین توڑا اور کل پورا دن اور رات قوم ایک خلا میں جارہی ہے حالانکہ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کوئی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے لیکن ماورائے آئین اقدام تو کل خود عمران نیازی اور صدر پاکستان اٹھا چکے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ووٹرز کو امن کے ساتھ جانے کی اجازت ہوگی اور تحریک پر ہر صورت ووٹنگ ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ جس خط کے بارے میں کہا جارہا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، دستاویزات بالکل مستند ہیں اس میں کوئی جھول نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے، وزیراعظم
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانی سفیر اسد مجید خان کی ایک ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ انہوں نے 16 مارچ کو ایک الوداعی عشائیہ دیا اور امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کا شکریہ ادا کیا گیا جبکہ وہ خط جو دفتر خارجہ کو موصول ہوا وہ 7 مارچ کو تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 7 مارچ کو خط میں کہا گیا کہ ڈونلڈ لو سے ہونے والی بات چیت میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکا، پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی سازش کر رہا ہے جبکہ 16 مارچ کو سفیر نے ان کی دعوت کی۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 16 مارچ کی ٹوئٹ میں ہمارے سفیر شکریہ ادا کر رہے ہیں جبکہ خط 7 مارچ کا ہے یا یہ بات غلط ہے جو سفیر نے اپنی ٹوئٹ میں کہی اور اگر بالفرض 7 مارچ کو کوئی ملاقات ہوئی اور انہوں نے کوئی ایسی بات کی تھی تو دعوت اور شکریہ کس بات کا تھا۔
صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اگر دھمکی دی گئی تھی تو دعوت دینا یہ بڑی متضاد باتیں ہیں، اسے ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ کل جن 197 لوگوں نے (خودساختہ اجلاس میں) تحریک عدم اعتماد پر ووٹ دیا ہے تو اسپیکر کے کل کے بھاشن کے مطابق تو ہم غدار ہوگئے، یہ قوم، آئین، پارلیمان کے ساتھ سنگین مذاق کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی نے سازشی ذہن کے تحت آئین توڑا، صدر نے آئین توڑا، انہیں اسمبلیاں توڑنے کا کوئی حق نہیں تھا، اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے وزیراعظم کے ’بچ نکلنے‘ تک کا سفر
شہباز شریف نے کہا کہ حکومت نے آئین کی دفعہ 62 کا حوالہ دیا کہ ایوان کی کارروائی پر نوٹس پر کوئی سماعت نہیں ہوسکتی، یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ایوان کی کارروائی کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری جائیں تو اسپیکر کو تحفظ حاصل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملات نہایت سنگین ہیں، ہم اس بات کو یہی نہیں رہنے دیں گے، پورے پاکستان میں احتجاج کریں گے، غدار کی بات انہوں نے کی ہے، ہم نے کبھی غدار کی بات نہیں کی۔
نگراں حکومت کی نامزدگی کے لیے صدر کے خط سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ آئین شکن کے خط کا آئین کے محافظ جواب دیں، پہلے عدالت اس معاملے کا فیصلہ کرے گی جس کے بعد ہم اس معاملے کو مشاورت سے طے کریں گے۔
سازش ثابت ہوئی تو آپکے ساتھ کھڑے ہوں گے، خالد مقبول
اس موقع پر بات کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اگر حکومت کے خلاف کوئی بین الاقوامی سازش ہو رہی تھی تو یہ اسے ثابت کرنا تھا ہمیں نہیں، انہیں عدالتی کمیشن تشکیل دے کر جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب عدالتوں کا کام ہے کہ اسے ثابت کرے، اگر آپ صحیح ہوئے تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن اگر جھوٹ ثابت ہوا تو تمام سیاسی قوتوں اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ عدالتی فیصلہ ہو اور ان کے مستقبل کا بھی فیصلہ ہو۔