روزے رکھنے سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
ویسے تو ماہ رمضان کے دوران روزے رکھنا مذہبی فریضہ ہے، مگر یہ صحت کی بہتری کے لیے بھی بہترین وقت ہوتا ہے۔
اس حوالے سے ماہرین طب کی جانب سے کام کیا جارپا ہے جس میں مخصوص اوقات تک کھانے سے دوری کے جسم پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
جیسے انٹرمٹنٹ فاسٹنگ پر حالیہ برسوں میں کافی کام ہوا ہے۔
انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے مراد دن میں ایک خاص دورانیے تک کھانے سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔
یعنی ایک طرح سے یہ رمضان کے روزوں جیسا طریقہ کار ہی ہے اور متعدد تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ یہ جسم اور دماغ دونوں کے لیے بہت زیادہ مفید ہے۔
تو رمضان کے دوران روزے رکھ کر آپ کیا ممکنہ فوائد حاصل کرسکتے ہیں، مگر یہ خیال رہے کہ یہ فوائد صحت بخش غذائی عادات کو اپنانے سے ہی حاصل ہوں گے بہت زیادہ یا چکنائی سے بھرپور پکوانوں کا استعمال الٹا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ہارمونز، خلیات اور جینز کے افعال میں تبدیلیاں
جب آپ کچھ وقت تک غذا کو خود سے دور رکھتے ہیں تو جسم کے اندر کافی کچھ ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر جسم ہارمونز کی سطح میں تبدیلیاں لاتا ہے تاکہ ذخیرہ شدہ جسمانی چربی زیادہ قابل رسائی ہو جبکہ اہم خلیاتی مرمت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
روزے کے دوران خون میں انسولین کی سطح میں نمایاں کمی آتی ہے جو چربی گھلانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
اسی طرح خون میں ایچ جی ایچ نامی ہارمون میں ڈرامائی اضافہ ہوسکتا ہے، اس ہارمون کی تعداد بڑھنے سے بھی چربی گھلنے میں مدد ملتی ہے جبکہ مسلز کا حجم بڑھتا ہے۔
جسم کی جانب سے خلیات سے ناکارہ مواد کو نکالنے کا عمل بھی شروع ہوتا ہے جبکہ متعدد جینز اور مالیکیولز میں فائدہ مند تبدیلیاں آتی ہیں جن کو مختلف امراض سے تحفظ سے منسلک کیا جاتا ہے۔
جسمانی وزن میں کمی اور توند کی چربی گھلانے میں مدد
مخصوص وقت تک بھوکے رہنے یا روزہ رکھنے سے جسمانی وزن میں کمی لانا بھی آسان ہوتا ہے۔
اس کے پیچھے وجہ بھی سادہ ہے جب آپ روزہ رکھتے ہیں تو معمول سے کم غذا کا استعمال کرتے ہیں ماسوائے اس صورت میں جب آپ سحر و افطار میں معمول سے زیادہ غذا جزوبدن بنائیں۔
مزید براں روزے کی حالت میں جسمانی وزن میں کمی میں مددگار ہارمون کے افعال بھی بہتر ہوجاتے ہیں جیسا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے، جبکہ جسم چربی کو توانائی کے لیے استعمال رکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک روزے سے بھی میٹابولک ریٹ میں اضافہ ہوتا ہے اور زیادہ کیلوریز کو بھی جلانا آسان ہوجاتا ہے۔
انسولین کی مزاحمت میں کمی، ذیابیطس ٹائپ ٹو کے خطرے میں کمی
ذیابیطس ٹائپ 2 حالیہ دہائیوں میں بہت تیزی سے عام ہوا ہے اور اس کے ایک بنیادی عنصر انسولین کی مزاحمت ہوتی ہے جس کے باعث بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔
انسولین کی مزاحمت کو کم کرنے والا ہر کام بلڈ شوگر کی سطح کو بھی کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے جس سے ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونے سے تحفظ ملتا ہے۔
روزے یا بھوکے رہنے سے انسولین کی مزاحمت کی سطح میں کمی آتی ہے جس سے بلڈ شوگر کی سطح بھی بہتر ہوتی ہے۔
جسمانی ورم اور تکسیدی تناؤ میں کمی
تکسیدی تناؤ عمر بڑھنے کے اثرات کا حصہ ہے جس کے متعدد دائمی امراض سے بھی منسلک کیا جاتا ہے۔
تکسیدی تناؤ غیر مستحکم مالیکیولز پر مشتمل ہوتا ہے جن کو فری ریڈیکلز کہا جاتا ہے جو دیگر اہم مالیکیولز جیسے پروٹین اور ڈی اے این سے تعلق پیدا کرکے ان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
متعدد تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے تکسیدی تناؤ کے خلاف جسمانی مزاحمت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح تحقیقی رپورٹس میں یہ بھی ببتایا گیا کہ اس طرح ورم سے لڑنے میں بھی مدد ملتی ہے، جیسا آپ کو علم ہی ہوگا کہ ورم متعدد عام امراض کا باعث بننے والا ایک اہم عنصر ہے۔
دل کی صحت کے لیے مفید
امراض قلب اس وقت دنیا میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
خالی پیٹ رہنا یا روزے رکھنے سے بلڈ شوگر، بلڈ پرشر، خون میں چکنائی، کولیسٹرول کی سطح جیسے امراض قلب کے خطرے سے منسلک عناصر کو بہترک یا جاتا ہے۔
اس حوالے سے مگر انسانوں پر ابھی زیادہ کام نہیں ہوا اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
کینسر سے بچانے میں ممکنہ طور پر مددگار
کینسر خلیات کی قابو سے باہر نشوونما کو کہا جاتا ہے مگر انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کے میٹابولزم پر مرتب فائدہ مند اثرات کے باعث خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے کینسز کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔
جانوروں پر اس حوالے سے اب تک ہونے والے تحقیقی کام کے نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں اور انسانوں میں نتائج ملتے جلتے رہے ہیں مگر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ایسے بھی چند شواہد سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ روزے سے انسانوں پر کیموتھراپی کے متعدد مضر اثرات کی شدت میں کمی آتی ہے۔
دماغ کے لیے بھی مفید
جو چیز آپ کے جسم کے لیے چھی ہو وہ دماغ کے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔
روزے کی حالت سے ایسے متعدد میٹابولک فیچرز بہتر ہوتے ہیں جو دماغ کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
ان فیچرز جیسے تکسیدی تناؤ، ورم، بلڈ شوگر کی سطح اور انسولین کی مزاحمت میں بہتری کا اثر دماغ پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
روزے سے ایک دماغی ہارمون بی ڈی این ایف کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے، اس ہارمون کی سطح میں کمی کو ڈپریشن اور متعدد دماغی مسائل سے منسلک کیا جاتا ہے۔
الزائمر امراض کی ممکنہ روک تھام
الزائمر امراض کا کوئی علاج اس وقت موجود نہیں، تو اس سے بچنا ہی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا کہ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے الزائمر کا شکار ہونے کا عمل التوا کا شکار ہوسکتا ہے یا اس کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔
اس حوالے سے انسانوں میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔