پاکستان

دھمکی آمیز خط: سفارتی ذریعے سے مراسلہ دے دیا گیا، دفتر خارجہ

ترجمان کے ایک بیان میں کسی ملک یا سفارتی عہدیدار کا نام لیے بغیر قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق مراسلہ دینے کا بتایا گیا۔
|

دفتر خارجہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئے فیصلے کے مطابق سفارتی ذریعے سے باضابطہ مراسلہ دے دیا۔

رات گئے ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار احمد کے جاری ایک بیان میں کسی ملک یا سفارتی عہدیدار کا نام لیے بغیر مراسلہ دینے کا اعلان کیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی نے بغیر کسی ملک کا نام لیے کہا تھا کہ اس کی جانب سے کمیونیکیشن (مراسلہ) پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے، پاکستان سفارتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ملک کو مضبوط سفارتی رد عمل جاری کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: مراسلہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت ہے، سفارتی جواب دیں گے، قومی سلامتی کمیٹی

بعدازاں قوم سے خطاب کے دوران بظاہر زبان پھسلنے کی صورت میں وزیر اعظم نے امریکا کا نام مبینہ طور پر اس مراسلے کے پسِ پردہ ملک کے طور پر لیا، لیکن پھر کہا کہ یہ کوئی اور ملک ہے امریکا نہیں۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے متعلق جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر ملکی عہدیدار کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان کو غیر سفارتی قرار دیا۔

جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے بریفنگ پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ خط مذکورہ ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے۔

مزید پڑھیں: دھمکی آمیز مراسلہ: الزامات میں کوئی صداقت نہیں، امریکا

اجلاس میں کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان سفارتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام آباد اور اس ملک کے دارالحکومت دونوں میں مناسب طریقے سے متعلقہ ملک کو ایک مضبوط سفارتی رد عمل جاری کرے گا۔

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے اقدام میں امریکا کے ملوث ہونے کے دعوے محض الزامات ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

خیال رہے کہ اتوار کو اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ ہے اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کسی حکومتی ادارے یا عہدیدار نے پاکستان کو خط نہیں بھیجا، امریکا

مبینہ طور پر یہ سفارتی کیبل 7 مارچ کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے ایک روز قبل بھیجا گیا تھا۔

دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ سفارتی کیبل امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان غیر معمولی طور پر سخت تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی آمیز مراسلے کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے اس وقت تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔