ایم کیو ایم پاکستان کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان، متحدہ اپوزیشن سے معاہدے پر دستخط
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن کے ساتھ پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کردیا جبکہ اپوزیشن سے معاہدے پر دستخط کیے۔
اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی کوئی شق ہمارے سیاسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے سیاسی مفادات پر ہم نے پاکستان کے مفادات کو ترجیح دی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کہنا تھا کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے، آج کے دن ہم ایسی سیاست کا آغاز کرنا چاہتے ہیں جہاں کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے، آج کامیابی سے زیادہ امتحان کا دن ہے، چاہتے ہیں سیاسی اختلافات ختم کرکے آگے بڑھیں، آج قوم کو ایک امتحان کا سامنا ہے جس سے گزرنا ہے۔
خالد مقبول نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں سیاسی اختلافات ختم کرکے آگے بڑھیں، ایسے دور کا آغاز کریں جہاں سیاسی اختلاف ، ذاتی دشمنی نہ سمجھی جائے، تبدیلی کے اس سفر میں اب متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں، امید ہے آنے والی تبدیلی ملک کے لیے اچھی ثابت ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ اسمبلی میں ہماری 26 نشستیں تھیں جن کو 7 کردیا گیا، اس کے باوجود نہ ہماری 7 نشستوں کے بغیر حکومت بن سکتی ہے اور نہ ہی جاسکتی ہے۔
یہ حقیقی معاہدہ ہے،کوئی جعلی خط نہیں، شہباز شریف
اس موقع پر بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے، شاید دہائیوں میں ایسا موقع آیا جب پوری قومی سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر قومی جرگہ کی صورت میں موجود ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے گزشتہ رات ملاقات کی اور دونوں پارٹیوں کے درمیان 20 منٹ میں معاملات طے ہوگئے، یہ حقیقی معاہدہ ہے، یہ کوئی جعلی خط نہیں ہے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم استعفیٰ دے کر نئی روایات قائم کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امید تو نہیں لیکن چاہتے ہیں کہ عمران خان جمہوریت روایت کی پاسداری کریں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم چاہے سلیکٹڈ ہی کیوں نہ ہو، جمہوریت کا طریقہ اور روایت ہے کہ اگر وہ عددی اکثریت کھو بیٹے ہیں تو ایک نئی ریت اور روایت قائم کریں اور استعفیٰ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد معاملات پر بات چیت بہت حد تک مکمل ہوگئی، ایک دو نکات پر بات جاری ہے، وہ بھی جلد حل ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن کا معاہدہ قائم رہے گا اور اس پر عمل بھی ہوگا، 22 کروڑ عوام کا مقدمہ متحدہ اپوزیشن، بی اے پی اور ایم کیو ایم لڑنے جارہی ہے۔
وزیراعظم اکثریت کھو چکے، لہذا استعفیٰ دیں، بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے کراچی اور پاکستان کی ترقی کے لیے اچھا فیصلہ کیا، کراچی اور پاکستان کی ترقی کے لیے اب مل کر محنت کرنی ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے عوام مزید خوشخبریاں سنیں گے، ہم نئے سفر کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کا تحریک عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں، دونوں پارٹیوں کا ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک ساتھ چلنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اپنی اکثریت کھو چکے ہیں، لہذا عمران خان استعفیٰ دیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا اگر وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیتے تو آئیں اسمبلی سیشن میں تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں اپنی اکثریت ثابت کریں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی اکثریت کھو چکی، بہت جلد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ملک کے وزیراعظم منتخب ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی پی اور ایم کیو ایم میں دوری کے باعث کراچی کا نقصان ہوا، اب تمام قومی قیادت ایک صفحے پر جمع ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان اپنی اکثریت کھو چکے ہیں، عمران خان وزیراعظم نہیں رہے اور ان کے پاس استعفی کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا۔
سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا، مولانا فضل الرحمٰن
متحدہ اپوزیشن کی ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی۔ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین سال قبل اس ڈرامے کا آغاز ہوا تھا اب اس کا خاتمہ قریب ہے، آج اس سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا۔
سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین سال قبل آنے والی نحوست کے خاتمے اور اس سے نجات دلانے میں کارکنوں نے اہم کردار ادا کیا، ان کی بے توقیری کی سیاست نے ملک کی اخلاقی، سماجی بنادیں ہلادیں، آج اس جھوٹ پر مبنی سیاست کا خاتمہ ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں صحت مند سیاست کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں، احترام پر مبنی اقدار کا احیا چاہتے ہیں، کیونکہ جب معاشرہ اپنی قدریں کھو بیٹھتا ہے تو اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ پھر وہ اپنے وجود کا خاتمہ کرلیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن دوستوں نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ان کے پاس اب بھی وقت ہے ، انہیں چاہیے کہ وہ متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دے کر قومی دھارے میں شامل ہوں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ آج ایم کیو ایم اور بی اے پی کی وجہ سے ہماری تعداد 175 ہوگئی ہے جبکہ کامیابی کیلئے ہمیں 172 چاہئیں، اس وقت ہمیں قومی اسمبلی کے 175 اراکین کی حمایت حاصل ہے، سنا ہے وزیراعظم قوم سے خطاب کریں گے، اب سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا، وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہوں۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ جس اتحاد اور یکجہتی کا آج قومی قیادت کی جانب سے اظہار کیا گیا اسی جذبے کی ملکی ترقی اور خوشحالی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈراؤ مت، تمہیں کسی نے کوئی دھمکی نہیں دی، تمہاری حیثیت کیا ہے جو تمہیں کوئی دھمکی دے یا تمہارے خلاف سازش کرے۔
سربراہ پی ڈی ایم نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم ہو کیا چیز، ایسی باتیں کر کے تم اپنی اہمیت بڑھانا چاہتے ہو، آپ کی حیثیت نہیں جس کو امریکا یا اس جیسا کوئی ملک دھمکی دے، ایسا کرکے کیا انہوں نے اپنی سیاست خراب کرنی ہے اور خود کو آپ کے لیول پر لانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے، سازش ان کے خلاف نہیں، بلکہ ان کو اقتدار میں لانا ملک کے خلاف سازش تھی، اس عالمی سازش کے تحت ہی ماورائے قانون اقدامات کیے گئے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جس اتحاد اور یکجہتی کا آج قومی قیادت کی جانب سے اظہار کیا گیا اسی جذبے کی ملکی ترقی اور خوشحالی کےلیے ضرورت ہے۔
اانہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں، معاہدے کے اثرات اور ثمرات پاکستان کے عوام تک پہنچیں گے۔
بین الاقوامی سازشوں کا چورن بہت پراناہے، اختر مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ) کے سربراہ اختر مینگل نے بھی وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم عمران خان کے پرانے اتحادی ہیں، ہم سیاسی بات کریں گے، عمران خان قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے، استعفیٰ دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ نہ بولڈ ہونگیں نہ کیچ آؤٹ ہونگیں، یہ ہٹ وکٹ ہونگیں، آج وہ ہٹ وکٹ ہوچکے، ان کا اپنا ہی بیٹ ان کی وکٹ کو لگ چکا، خان صاحب آپ کو کرکٹ کا تجربہ زیادہ ہوگا لیکن ہماری سیاست کا تجربہ آپ سے بہت زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سازشوں کا چورن بہت پراناہے، یہ اب بکنے والا نہیں بلکہ کوئی نیا چورن لاؤ، بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سے انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے، ہمیں نہ نیا پاکستان چاہیے، نہ پرانا پاکستان چاہیے، ہمیں مختلف پاکستان چاہیے جہاں ہمیں جینے کے حقوق حاصل ہوں۔
اختر مینگل نے کہا کہ ہمیں مختلف پاکستان چاہیے جس میں جینے کا حق ہو، ہر صوبے کے پاس اس کے وسائل کا اختیار ہو، لوگوں کے ساتھ انسان کے طور پر برتاؤ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا پاکستان چاہیے جہاں میرے بچے لاپتہ نہ ہوں، والدین رو رو کر نابینا نہ ہوجائیں، ایسے پاکستان کا کیا فائدہ جہاں والدین اپنے بچے دیکھ نہ سکیں۔
نیا، نہ پرانا بلکہ عوامی پاکستان چاہیے,خالد مگسی
بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے پارلیمانی لیڈر خالد مگسی نے کہا کہ نہ نیا، نہ پرانا بلکہ عوامی پاکستان ہونا چاہیے، کل رات جو معاہدہ ہوا وہ ایم کیو ایم کا حق تھا، پیپلزپارٹی نے معاہدہ کرکے تسلیم کیا کہ ہم سب ایک ہیں۔
بعد ازاں متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان طے ہونے والے معاہدے پر دونوں طرف کے رہنماؤں نے دستخط کردئیے جبکہ اس کے علاوہ ایک اور معاہدہ چارٹر آف رائٹس کے عنوان سے طے پایا جس پر مسلم لیگ (ن)کے رہنما احسن اقبال اور ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان نے دستخط کیے۔
رابطہ کمیٹی نے اپوزیشن کے ساتھ معاہدے کی توثیق کردی
قبل ازیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کی رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان گزشتہ رات ہونے والے معاہدے کی توثیق کردی تھی۔
ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما نسرین جلیل نے کراچی میں پارٹی کے مرکز کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس پیش رفت کی تصدیق کی۔
نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات شام 4 بجے پریس کانفرنس میں سامنے آئیں گی۔
یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن یا حکومت، ایم کیو ایم پاکستان کے گیم چینجر فیصلے کا اعلان آج ہوگا
واضح رہے کہ گزشتہ رات گئے پارٹی نے اپوزیشن لیڈرز کے ساتھ ملاقات کی تھی جس نے دارالحکومت میں کافی ہلچل مچادی تھی۔
ابتدائی طور پر خواجہ آصف، شیری رحمٰن، نوید قمر، ایاز صادق، اختر مینگل، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پر مشتمل اپوزیشن کا وفد آدھی رات سے کچھ پہلے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا۔
انہوں نے ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور دیگر رہنماؤں سے بات چیت کی تھی۔
ملاقات کے دران مشترکہ اپوزیشن نے کوشش کی کہ ایم کیو ایم فوری طور پر کسی فیصلے کا اعلان کردے لیکن ایم کیو ایم پاکستان نے اتنی رات گئے کوئی حتمی بیان دینے سے گریز کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ اگلے دن اپنے فیصلے کا اعلان کرے گی۔
مزید پڑھیں:ایم کیو ایم پاکستان سے معاملات طے پا گئے ہیں، پیپلز پارٹی کا دعویٰ
ایم کیو ایم پی کے ترجمان نے کہا تھا کہ معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، پارٹی اپنے فیصلے کا اعلان اس وقت ہی کرے گی جب اس کی توثیق رابطہ کمیٹی سے ہو جائے گی۔
ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا تھا کہ متحدہ اپوزیشن اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے درمیان معاہدہ نے حتمی شکل اختیار کر لی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سی ای سی، ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی مجوزہ معاہدے کی توثیق کے بعد اس کی تفصیلات سے کل شام 4 بجے باضابطہ میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔
قبل ازیں خواجہ آصف، شیری رحمٰن، نوید قمر، ایاز صادق، اختر مینگل، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پر مشتمل اپوزیشن کا وفد آدھی رات سے کچھ پہلے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:ایم کیو ایم سندھ حکومت میں اتحادی بن سکتی ہے، سعید غنی
بعد ازاں حزب اختلاف کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول، مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف بھی رات 2 بجے کے قریب وہاں پہنچے تھے تاکہ حکومتی اتحادی کو رخ بدلنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
اس بات کی تصدیق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی کی تھی۔
اپنے ٹوئٹر پار جاری اپنے ایک بیان میں اہوں نے کہا تھا کہ متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ ہو گیا، رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم اور پی پی پی کے سی ای سی معاہدے کی توثیق کریں گے، اس کے بعد ہم کل پریس کانفرنس میں میڈیا کے ساتھ تفصیلات شیئر کریں گے، پاکستان کو مبارک ہو۔
رات بھر ٹی وی چینلز پر اجلاس کے ممکنہ نتائج کی خبریں چلتی رہے تھیں، متعدد آؤٹ لیٹس نے رپورٹ کیا تھا کہ اپوزیشن کے ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ایم کیو ایم-پی نے ان کے ساتھ شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے تو کچھ چینلز نے خالد مقبول صدیقی اور وسیم اختر کے حوالے سے کہا کہ کچھ بھی طے نہیں ہوا تھا۔
اجلاس سے باخبر ذرائع نے بتایا تھا کہ اجلاس میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کی سینئر قیادت کی موجودگی میں سندھ کے انتظامی اور بلدیاتی امور کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور ایم کیو ایم-پی کے درمیان مستقبل کے معاہدے سے متعلق بعض شقوں پر غور کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:'وزیراعظم نے قسم کھائی ہے کہ کسی ادارے کو غیر متنازع رہنے نہیں دوں گا'
ذرائع نے بتایا تھا کہ معاہدہ صرف پیپلزپارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ پوری اپوزیشن کے ساتھ ہونا ہے اور اگر رابطہ کمیٹی نے منظور کرلیا تو مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔
خیال رہے کہ اگر ایم کیو ایم پی اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈالتی ہے تو یہ ان کے حق میں ترازو کو بڑی حد تک جھکا دے گا۔
کچھ اندازوں کے مطابق حکمران اتحاد کے پاس ارکان کی تعداد 171 ہے کیونکہ جماعت اسلامی کے واحد قانون ساز نے عدم اعتماد کے ووٹ میں غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا ہے۔
دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے اپنی صفوں میں شامل ہونے کے بعد اپوزیشن کے پاس 169 ارکان موجود ہیں۔اگر ایم کیو ایم پی کے 7 اراکین اپوزیشن کی جانب بڑھ جائیں تو یہ غیر یقینی توازن آسانی سے جھک سکتا ہے۔