کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟
44 سال بعد وزیرِاعظم عمران خان نے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ کی ایک بڑی ریلی میں جس تاریخ کو ببانگ دہرانے کی کوشش کی، کیا اس کے بعد بھی وہ اور ان کی حکومت بچ سکے گی؟
یہ سوال میں نے اس لیے اٹھایا ہے کہ مارچ 1977ء کے الیکشن کے بعد جب پاکستان قومی اتحاد کی نظامِ مصطفیٰ کی تحریک اپنے عروج پر تھی تو اس وقت وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پنڈی کے بھرے بازار میں ایک امریکی اہلکار کا خط لہراتے ہوئے باقاعدہ اس کا نام لیتے ہوئے کہا تھا امریکا میری حکومت کو ختم کرنے اور مجھے مارنے کی سازش کررہا ہے، اور پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اسی بات کو دہرایا تھا۔
4 دہائی پہلے اگرچہ موجودہ دور کی طرح ٹیکنالوجی تو میسر نہیں تھی مگر اس کے باوجود ہمارے جیسے ملک کے پاس بھی وہ Device ضرور تھی جس کے ذریعہ لینڈ لائن ٹیلی فون کالوں کو ریکارڈ کرنے کی حکومت کو صلاحیت حاصل تھی۔
بھٹو صاحب نے جس امریکی اہلکار کا حوالہ دیا تھا وہ اسلام آباد کے سفارتخانے میں ایک اہم عہدے پر فائز تھا اور دہلی میں اپنے ایک ہم منصب سفارتکار سے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا Party is over ،party is over۔
بھٹو صاحب جب انتہائی جذباتی انداز میں یہ سب کہہ رہے تھے تو مجھ جیسے صحافت اور سیاست کے طالب علم کو یقین تھا کہ اب نہ صرف بھٹو صاحب کی حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں بلکہ خود وہ امریکا جیسی سپر پاور کو چیلنج کرکے اپنی زندگی کو بھی داؤ پر لگا چکے ہیں۔
70 کی دہائی میں سرد جنگ اپنے شباب پر تھی، گو سویت یونین ایک سپر پاور تو تھا مگر تیسری دنیا میں حکومتوں کو لانے اور گرانے میں کلیدی کردار امریکا بہادر کا ہی ہوتا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان ممالک کی عسکری اور معاشی قوت کا انحصار امریکا پر تھا۔
یہ آج کا اعتدال پسند اور جمہوری امریکا نہیں تھا بلکہ معروف بازاری زبان میں سفاک سامراجی ملک تھا، جس نے 44 ہزار امریکی فوجی ویتنام میں جھونک دیے تھے اور کم و بیش اتنے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ غالباً 54 ہزار امریکی کوریا جنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بعد کے برسوں میں انڈونیشیا کے مردِ آہن صدر سوکارنو جیسے امریکی مخالف بھی اپنی جان سے گئے، لیبیا کے صدر معمر قزافی اور عراق کے صدر صدام حسین کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔
یہ لیجیے پہلے بھی اپنے بلاگ یا کالم میں اپنے بھٹکنے کا ذکر کرچکا ہوں مگر یہ تحریر لکھتے ہوئے میں قطعی نہیں بھٹکا بلکہ خان صاحب کی کم و بیش 2 گھنٹے کی تقریر ایک ٹرننگ پوائنٹ ضرور ثابت ہوسکتی ہے، جو چیختی چلاتی اسکرینوں پر سارے ملک بلکہ ساری دنیا میں دیکھی گئی۔
وزیرِاعظم عمران خان نے بغیر کسی لگی لپٹی بھٹو صاحب کی جرأت و عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کم و بیش وہی حالات ہیں۔ عمران خان نے بھٹو صاحب کی طرح خط بھی لہرایا جسے کروڑوں لوگوں نے دیکھا۔
وزیرِاعظم عمران خان اور ان کے میڈیا منیجر تواتر سے پچھلے ایک ہفتے سے اس جلسے اور اس میں کی جانے والی وزیرِاعظم عمران خان کی تقریر کی اہمیت کا ذکر کر رہے تھے، مگر معذرت کے ساتھ کبھی کبھی کہہ دینے میں حرج نہیں کہ مجھے خان صاحب کی اس تقریر سے چند گھنٹے پہلے اسلام آباد میں اپنے ذرائع سے ایک دو کالوں کے بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ وزیرِاعظم بڑی ڈرامائی انداز میں امریکا بہادر کا نام لیے بغیر اپوزیشن اتحاد کی اس تحریک کو ضرور بیرونی سازش سے جوڑیں گے۔
وزیرِاعظم عمران خان گزشتہ کچھ مہینوں سے مہنگائی جیسے مقبول نعرے کے سبب سیاسی تنہائی کا شکار ہو رہے تھے، مگر اس تقریر کے بعد سیاسی ارینا میں واپس آگئے ہیں اور اس کے ساتھ بہت سارے سوال کے جواب بھی آنے ہیں۔
اگرچہ امریکا بہادر اب سپر پاور نہیں رہا اور ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی امریکا بہادر کی اتنی تابع نہیں رہی، بلکہ اب بڑی حد تک چین کی بھرپور عسکری و معاشی امداد اور حمایت کے سبب ہماری معیشت بلکہ عسکری طاقت کو بھی گزشتہ چند برسوں میں سی پیک سمیت بھرپور پشت پناہی ہوگئی ہے، ایسے حالات میں یقیناً یہ تقریر وزیرِاعظم کا ایک بڑا گیمبل یعنی جوا تھی۔
لہٰذا اس سے وزیرِاعظم کو کتنا سیاسی فائدہ پہنچے گا یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ہر آنے والا دن ایک نئی ڈرامائی صورتحال لیکر آرہا ہے۔ اب خود ہی دیکھیں کہ ساری نظریں اسلام آباد کے بجائے تختہ لاہور پر لگ گئی ہیں۔ عثمان بزدار سے استعفی لے لیا گیا اور پرویز الہٰی نے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا کہ حکومت نے انہیں وزیرِاعلی پنجاب کے لیے نامزد کردیا ہے۔
حکومت کے بقیہ اتحادی خاص طور پر ایم کیو ایم کیا فیصلہ کرتی ہے، یہ حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ خود ایم کیو ایم کے لیے بھی اہم ہے۔ تو آنے والے دنوں میں ملکی سیاست میں کیا کچھ ہوتا ہے، آئیے ملکر انتظار کرتے ہیں۔
مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔