پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز: 24 سال بعد کھیلی گئی سیریز کے دلچسپ اعداد و شمار
آسٹریلیا کی ٹیم نے 24 سال کے طویل عرصہ بعد پاکستان کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز کھیلی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس سے قبل 99ء-1998ء میں بھی اس نے یہاں 3 ٹیسٹ کی سیریز میں 0-1 سے کامیابی حاصل کی تھی اور اب 24 سال بعد بھی یہی نتیجہ رہا۔
فرق صرف یہ ہے کہ گزشتہ سیریز میں راولپنڈی کے میدان پر کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے ایک اننگ اور 99 رنز سے میچ جیتا تھا اور پشاور و کراچی کے ٹیسٹ ہار جیت کے بغیر ختم ہوئے تھے۔ اس مرتبہ راولپنڈی اور کراچی کے ٹیسٹ ڈرا ہونے کے بعد لاہور میں آسٹریلوی ٹیم 115 رنز سے فاتح رہی۔ اس طرح دونوں مرتبہ آسٹریلیا نے پاکستان کو 0-1 سے شکست دی۔
یہ آسٹریلیا کی پاکستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین پر تیسری ٹیسٹ سیریز میں کامیابی ہے۔ اب تک آسٹریلیا کی ٹیم 9 مرتبہ پاکستان کا دورہ کرچکی ہے اور یہاں 7 مرتبہ 3 ٹیسٹ کی سیریز کے علاوہ 2 مرتبہ ایک، ایک ٹیسٹ پر مشتمل سیریز بھی کھیل چکی ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ پاکستان میں 60ء-1959ء میں 0-2 سے سیریز جیتی تھی۔ اب تک آسٹریلیا پاکستان کی سرزمین پر 23 ٹیسٹ کھیل چکی ہے، جن میں سے اسے 7 میں ناکامی ہوئی اور 4 میں کامیابی ملی، جبکہ 12 ٹیسٹ ہار جیت کے بغیر ختم ہو ئے۔
مجموعی طور پر دونوں ممالک کے درمیان 69 ٹیسٹ میچ کھیلے جاچکے ہیں۔ ان میں سے پاکستان میں 23، آسٹریلیا میں 37 اور نیوٹرل مقامات پر 9 ٹیسٹ شامل ہیں۔ ان تمام میچوں میں آسٹریلیا کا پلہ بھاری رہا ہے۔ اس نے 34 میچوں میں پاکستان کو شکست سے دوچار کیا جبکہ پاکستان نے 15 مرتبہ آسٹریلیا کو ہرایا۔ بقیہ 20 ٹیسٹ ڈرا ہوئے۔
رواں ماہ جو 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی گئی، اس میں اگرچہ آسٹریلیا آخری میچ میں فاتح رہا مگر پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں نے بابر اعظم کی قیادت میں مہمان ٹیم کا سخت مقابلہ کیا۔ دوسرے ٹیسٹ کے آخری دن پاکستانی بیٹسمینوں نے میچ میں زبردست واپسی کی اور ایک موقع پر اپنی ٹیم کو فتح کے قریب لے آئے۔ بابر نے غیر معمولی بیٹنگ کرتے ہوئے 196 رنز بنائے، جو اس سیریز میں دونوں ٹیموں کی جانب سے سب سے بڑی انفرادی اننگ تھی۔
سیریز میں بننے والی سنچریاں
پوری سیریز میں پاکستان کی جانب سے 6 انفرادی سنچریاں اسکور کی گئیں جن میں اوپنر امام الحق کی 2 سنچریوں کے علاوہ اظہر علی، عبداللہ شفیق، بابر اعظم اور محمد رضوان کی ایک، ایک سنچری شامل ہے۔ اس کے مقابلے پر آسٹریلیا کی طرف سے صرف 2 انفرادی سنچریاں بنائی گئیں اور یہ دونوں سنچریاں اس کے پاکستانی نژاد اوپنر عثمان خواجہ نے اسکور کیں۔ وہ پوری سیریز میں چھائے رہے اور پلیئر آف دی سیریز قرار دیے گئے۔
عثمان خواجہ پہلی مرتبہ اپنے آبائی ملک میں ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ انہوں نے پہلے ٹیسٹ میں 97 رنز، دوسرے میں 160 اور 44 رنز ناٹ آوٹ، اور تیسرے میچ میں 91 اور 104 رنز ناٹ آؤٹ اسکور کیے۔ وہ 2 مرتبہ نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے۔ مجموعی طور پر انہوں نے 5 اننگز کھیل کر 165.33 کی اوسط سے 496 رنز بنائے۔ تاہم وہ صرف 18 رنز کی کمی سے پاکستان کے خلاف کسی بھی آسٹریلوی بیٹسمین کی جانب سے 3 ٹیسٹ کی سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ نہ توڑ سکے۔ یہ ریکارڈ 99ء-1998ء میں مارک ٹیلر نے 513 رنز بناکر قائم کیا تھا۔
عثمان خواجہ اب تک ٹیسٹ کیریئر میں 12 سنچریاں اسکور کرچکے ہیں جن میں 3 پاکستان کے خلاف ہیں۔ اس کے علاوہ 16 نصف سنچریاں بھی بنا چکے ہیں جن میں 6 پاکستان کے خلاف بنائیں۔ لاہور ٹیسٹ کے دوران وہ پہلی اننگ میں 91 رنز پر آوٹ ہوئے اور دوسری اننگ میں 104 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ اس طرح وہ ایک ہی ٹیسٹ میچ میں سنچری اور نائنٹیز اسکور کرنے والے آسٹریلیا کے 10ویں اور دنیا کے 53ویں کھلاڑی ہیں۔
پاکستان کی جانب سے 2 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی دنیا میں واپس آنے والے امام الحق نے راولپنڈی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 157 رنز بنائے۔ یہ ان کے ٹیسٹ کیریئر کی پہلی سنچری تھی جو انہوں نے اپنے 12ویں ٹیسٹ میں اسکور کی۔ پھر دوسری اننگ میں وہ 111 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔ اس طرح وہ ایک ہی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا کارنامہ انجام دینے والے 10ویں پاکستانی بلے باز بنے۔
امام الحق سے پہلے جن 9 کھلاڑیوں نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے، ان میں ان کے چچا انضمام الحق بھی شامل ہیں، جنہوں نے 06ء-2005ء میں فیصل آباد میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں اسکور کیں۔
ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں اب تک 72 کھلاڑی 88 مرتبہ یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔ 3 کرکٹر (بھارت کے سنیل گاوسکر، آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ اور ڈیوڈ وارنر) یہ کارنامہ 3، 3 مرتبہ، اور 10 مختلف کھلاڑی 2، 2 مرتبہ انجام دے چکے ہیں۔ امام الحق نے سیریز میں مجموعی طور پر 2 سنچریوں اور ایک نصف سنچری کی مدد سے 370 رنز (74 کی اوسط سے) بنائے۔
100 رنز سے زائد کی شراکت
راولپنڈی کے ٹیسٹ میں ہی امام الحق نے آسٹریلیا کے خلاف پہلی مرتبہ ٹیسٹ میچ کھیلنے والے عبداللہ شفیق کے ساتھ مل کر پہلی اننگ میں افتتاحی وکٹ کی شراکت میں 105 رنز بنائے۔ پھر دوسری اننگ میں انہی دونوں نے ناٹ آؤٹ رہتے ہوئے 252 رنز کی شراکت قائم کرتے ہوئے آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی جانب سے پہلی وکٹ کے لیے سب سے بڑی شراکت کا 58 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ 65ء-1964ء میں خالد عباداللہ اور وکٹ کیپر عبدالقادر نے کراچی میں 249 رنز بناکر قائم کیا تھا۔
امام اور عبداللہ پاکستانی اوپنرز کی پہلی جوڑی ہے جس نے آسٹریلیا کے خلاف کسی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری کی شراکت قائم کی۔ مجموعی طور پر کسی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچری شراکت قائم کرنے والی یہ تیسری پاکستانی جوڑی ہے۔ اس سے قبل، عمران فرحت اور توفیق عمر نے 2003ء میں جنوبی افریقہ، اور عبداللہ شفیق اور عابد علی گزشتہ دسمبر میں بنگلہ دیش کے خلاف یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔
عبداللہ شفیق اور امام الحق کی اس شراکت میں دونوں نے سنچریاں بنائیں اور دونوں ناٹ آؤٹ رہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں یہ چوتھا موقع تھا جب پاکستان کے دونوں اوپنرز نے ایک ہی اننگ میں سنچریاں اسکور کیں۔ اس سے قبل، عامر سہیل اور اعجاز احمد نے 98ء-1997ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کراچی میں، سعید انور اور توفیق عمر نے 2001ء میں بنگلہ دیش کے خلاف ملتان میں اور شان مسعود اور عابد علی نے 20ء-2019ء میں سری لنکا کے خلاف کراچی میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ ان 4 جوڑیوں میں سے 2 نے میچ کی پہلی اور 2 نے دوسری اننگز میں سنچریاں اسکور کیں۔
راولپنڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں پہلی، دوسری اور تیسری وکٹ کے لیے مسلسل 3 سنچری شراکتیں قائم ہوئیں۔ پہلی وکٹ کے لیے امام الحق اور عبداللہ شفیق نے 105 رنز بنائے، دوسری کے لیے امام الحق اور اظہر علی نے 208 رنز کا اضافہ کیا اور تیسری وکٹ کے لیے اظہر علی اور بابر اعظم نے 101 رنز جوڑے۔ پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں یہ چوتھا واقعہ تھا کہ ایک اننگ کی پہلی 3 وکٹوں کے لیے لگاتار سنچری شراکتیں قائم ہوئیں۔
پہلی مرتبہ یہ واقعہ 58ء-1957ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹاؤن میں پیش آیا مگر وہاں پہلی 3 نہیں بلکہ 4 وکٹوں کے لیے مسلسل سنچری شراکتیں قائم ہوئیں اور ہر شراکت میں لٹل ماسٹر حنیف محمد موجود تھے۔ وہ مسلسل 16 گھنٹے اور 10 منٹ تک کریز پر جمے رہے۔ یہ عالمی ریکارڈ ہے جو گزشتہ 64 برسوں سے قائم ہے۔
تاہم ایک اننگ میں 3 مختلف وکٹوں کے لیے سنچری شراکت قائم کرنے کا کارنامہ پاکستان نے اب تک 10 مرتبہ انجام دیا ہے، جبکہ 4 وکٹوں کے لیے 2 مرتبہ سنچری شراکتیں قائم کیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں اظہر علی کے 7 ہزار رنز
پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں اظہر علی نے 185 رنز بنائے۔ یہ ان کے ٹیسٹ کیریئر کی 19ویں اور آسٹریلیا کے خلاف ان کی چوتھی سنچری تھی۔ بعد میں لاہور میں کھیلے گئے تیسرے اور آخری ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں انہوں نے 78 رنز بنائے۔ اس اننگ کے دوران جب وہ 74 پر پہنچے تو اپنے ٹیسٹ کیریئر کے 7 ہزار رنز مکمل کر چکے تھے۔ یہ ان کا 94واں ٹیسٹ تھا اور 173ویں اننگ تھی۔
اظہر یہ سنگ میل عبور کرنے والے پاکستان کے 5ویں اور دنیا کے 54ویں بلے باز ہیں۔ اب تک آسٹریلیا اور انگلینڈ کے 12، 12 کھلاڑی، ویسٹ انڈیز کے 8، بھارت کے 7، جنوبی افریقہ اور پاکستان کے 5، 5 نیوزی لینڈ کے 3 اور سری لنکا کے 2 کھلاڑی ٹیسٹ کرکٹ میں 7 ہزار یا زائد رنز اسکور کرچکے ہیں۔ یہ سنگ میل عبور کرنے والے دیگر پاکستانی بلے بازوں میں یونس خان، جاوید میانداد، انضمام الحق اور محمد یوسف شامل ہیں۔
کسی بھی پاکستانی بلے باز کے مجموعی طور پر سب سے زیادہ انفرادی رنز
راولپنڈی ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں نوجوان اوپنر عبداللہ شفیق 136 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ یہ ان کی پہلی ٹیسٹ سنچری تھی جو انہوں نے اپنے تیسرے ٹیسٹ میں اسکور کی۔ پھر کراچی میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں وہ 96 رنز بناکر آؤٹ ہوگئے اور صرف 4 رنز کی کمی سے اپنی دوسری سنچری مکمل نہ کرسکے۔
اس سے اگلے یعنی لاہور میں کھیلے گئے تیسرے اور آخری ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں انہوں نے 81 رنز اسکور کیے۔ اس طرح انہوں نے ایک سنچری اور 2 نصف سنچریوں کی مدد سے 3 ٹیسٹ کی 6 اننگز میں 79.4 کی اوسط سے 397 رنز بنائے۔ یہ اس سیریز میں کسی بھی پاکستانی بلے باز کی جانب سے سب سے زیادہ مجموعی رنز ہیں۔
بابر اعظم کی دلیرانہ بلے بازی
دوسرے نمبر پر کپتان بابر اعظم رہے اور انہوں نے 3 ٹیسٹ کی 5 اننگز میں ایک سنچری اور 2 نصف سنچریوں کی مدد 78 کی اوسط سے 390 رنز بنائے۔ انہوں نے کراچی میں غیر معمولی دلیرانہ بیٹنگ کرتے ہوئے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی سب سے بڑی اننگ کھیلی۔ وہ 10 گھنٹے اور 7 منٹ تک کریز پر رہے، 425 گیندوں کا سامنا کیا اور 21 چوکے اور ایک چھکا لگا کر 196 رنز بنائے۔ اگرچہ وہ صرف 4 رنز کی کمی سے اپنے ٹیسٹ کیریئر کی پہلی ڈبل سنچری مکمل نہ کرسکے مگر پاکستان کو شکست سے بچانے میں بہترین قائدانہ کردار ادا کیا۔ یہ ان کی چھٹی اور آسٹریلیا کے خلاف دوسری ٹیسٹ سنچری تھی۔
بابر کے 196 رنز کسی بھی ٹیسٹ کی چوتھی اننگ میں کپتان کی جانب سے سب سے بڑی اننگ ہے۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ انگلینڈ کے مائیکل ایتھرٹن کے پاس تھا، جنہوں نے 1995ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف 185 رنز بنائے تھے۔
دیگر بلے بازوں کی کارکردگی
بابر کے نائب کپتان محمد رضوان نے کراچی ٹیسٹ کی اسی اننگ میں ناقابلِ شکست 104 رنز بنائے، جو ان کے ٹیسٹ کیریئر کی دوسری اور آسٹریلیا کے خلاف پہلی سنچری تھی۔ اس سے قبل انہوں نے راولپنڈی ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کے ایک ہزار رنز مکمل کیے۔ وہ یہ سنگ میل عبور کرنے والے پاکستان کے 55ویں کھلاڑی ہیں۔ تاہم تیسرے ٹیسٹ میں وہ بُری طرح ناکام رہے اور دونوں اننگز میں صرف ایک رن بنا سکے۔
پاکستان کے ایک اور باصلاحیت بلے باز فواد عالم حیرت انگیز طور پر پوری سیریز میں ناکام رہے۔ وہ سیریز کی 4 اننگز کھیل کر صرف 33 رنز (اوسط 8.25) بناسکے۔ تاہم ابتدائی 4 بلے باز بے حد کامیاب رہے اور ان میں سے ہر ایک نے سیریز میں 300 سے زائد رنز اسکور کیے۔
دوسری جانب دنیا کی نمبر وَن ٹیم کا کوئی بھی کھلاڑی، سوائے عثمان خواجہ کے، 250 رنز بھی نہیں بناسکا۔ عثمان خواجہ 496 رنز بنا کر دونوں ٹیموں میں سرِفہرست رہے جبکہ تجربہ کار بلے باز اسٹیو اسمتھ نے 226 اور ڈیوڈ وارنر نے 169 رنز بنائے۔ ایلکس کیری نے 179، مارنس لبوشین نے 170، کیمرون گرین نے 155 اور ٹریوس ہیڈ نے صرف 68 رنز بنائے۔
اسٹیو اسمتھ کے ٹیسٹ کرکٹ میں 8 ہزار رنز
اسٹیو اسمتھ نے لاہور ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کے 8 ہزار رنز مکمل کیے۔ وہ یہ سنگ میل عبور کرنے والے آسٹریلیا کے 7ویں اور دنیا کے 33 ویں کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے اپنے 85 ٹیسٹ میچوں کی 151ویں اننگز میں یہ ہدف پورا کیا اور یہ سب سے تیز رفتاری سے 8 ہزار رنز مکمل کرنے کا عالمی ریکارڈ بھی ہے۔
اس سے قبل یہ ریکارڈ سری لنکا کے کمار سنگاکارا کے پاس تھا جنہوں نے 91 ٹیسٹ کی 152 اننگز میں قائم کیا تھا۔ اب تک آسٹریلیا اور انگلینڈ کے 7، 7 ، بھارت کے 6، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے 4، 4، پاکستان کے 3 اور سری لنکا کے 2 بلے باز ٹیسٹ کرکٹ میں 8 ہزار یا زائد رنز اسکور کرچکے ہیں۔
باؤلنگ میں آسٹریلیا کا پلڑا بھاری رہا
اگرچہ پاکستانی بلے بازوں کو اس سیریز میں برتری حاصل رہی مگر باؤلنگ میں آسٹریلوی کھلاڑی آگے رہے۔ فاسٹ باؤلر پیٹ کمنز اور اسپنر نیتھن لیون نے 12، 12 وکٹیں حاصل کیں اور مچل اسٹارک نے 8 وکٹیں لیں۔
پاکستانی باؤلرز میں شاہین شاہ آفریدی اور نعمان علی نے 9، 9 وکٹیں حاصل کیں۔ نو عمر فاسٹ باؤلر نسیم شاہ نے 2 ٹیسٹ کھیل کر 6 وکٹیں لیں۔ ساجد خان تینوں ٹیسٹ میں صرف 4 اور حسن علی 2 ٹیسٹ میں صرف 2 وکٹیں لے سکے۔ فہیم اشرف نے ایک ٹیسٹ کھیلا اور 2 وکٹیں لیں۔ نعمان علی نے پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 6 وکٹیں حاصل کیں جبکہ آسٹریلیا کے کمنز اور لیون نے ایک، ایک مرتبہ اننگ میں 5 وکٹیں حاصل کیں۔
کمنز کا بحیثیت کپتان یہ صرف ساتواں ٹیسٹ تھا جس میں انہوں نے اپنی ٹیم کو فتح سے ہم کنار کیا۔ ان کی قیادت میں آسٹریلیا ابھی تک کوئی ٹیسٹ نہیں ہارا۔ کمنز پہلی مرتبہ بیرون ملک اپنی ٹیم کی کپتانی کررہے تھے اور یہاں وہ پاکستان کے باصلاحیت نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کے خلاف 3 ٹیسٹ کی سیریز 0-1 سے جیتے۔
پاکستان کے نوجوان کھلاڑی بابر اعظم کا بحیثیت کپتان یہ 11واں ٹیسٹ تھا جس میں انہیں دوسری مرتبہ شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی جبکہ ان کی قیادت میں پاکستان پہلے ہی 7 ٹیسٹ جیت چکا تھا۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سلو ٹرننگ وکٹوں پر ٹاس نے اہم کردار ادا کیا اور اس کا فائدہ آسٹریلیا نے اٹھایا۔ آسٹریلیا کو پہلے ٹیسٹ سے ہی پاکستانی پچوں پر اعتماد نہیں تھا مگر یہ عدم اعتماد ہی اس کے کام آیا۔
مشتاق احمد سبحانی سینیئر صحافی اور کہنہ مشق لکھاری ہیں۔ کرکٹ کا کھیل ان کا خاص موضوع ہے جس پر لکھتے اور کام کرتے ہوئے انہیں 40 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ ان کی 4 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔