پاکستان

پیپلز پارٹی تحریک عدم اعتماد سے قبل اپوزیشن کے جلسے کی مخالف

اپنے کارکنوں کو لانگ مارچ اور اپوزیشن کے جلسے میں شرکت کی کال نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی

پاکستان پیپلز پارٹی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) پر 28 مارچ کو وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے لانگ مارچ اور جلسہ عام کی منسوخی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن کیمپ کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو اسلام آباد میں پہلے سے طے شدہ جلسے پر اپنے تحفظات سے باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد سے پی ٹی آئی پر عوام کا اعتماد بڑھا، وزیراعظم

ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو یہ بھی بتایا تھا کہ اگر وہ اپنے طے شدہ جلسہ عام کے انعقاد پر اصرار کرتے ہیں تو پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جلسے میں شرکت نہیں کر سکیں گے اور پارٹی اس جلسے میں علامتی طور پر شرکت کے لیے دوسرے درجے کے رہنماؤں کو نامزد کرے گی۔

پیپلز پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے اپنے کارکنوں کو لانگ مارچ اور اپوزیشن کے جلسے میں شرکت کی کال نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو ڈی چوک میں جلسے سے روکنے کے فیصلے کے بعد انہیں عوامی اجتماعات کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس طرح کے اقدام سے پی ٹی آئی کو عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ میں مزید تاخیر کا موقع مل سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ کچھ غیر جمہوری قوتیں بھی صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور ملک کو ایک ’غیر متوقع واقعے‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا ٹرمپ کارڈ یہ ہے کہ سیاست سے دستبردار ہو جائیں، مریم نواز

ان کا خیال ہے کہ چونکہ اپوزیشن، تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں کامیابی حاصل کر چکی ہے لہٰذا اسے ایسے پاور شو کے انعقاد کی ضرورت نہیں ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کا مؤقف تھا کہ جب پی ٹی آئی نے ڈی چوک پر عوامی اجتماع کے ذریعے اراکین قومی اسمبلی کو قومی اسمبلی میں داخلے سے روکنے کی دھمکی دی تھی تو اس وقت اپوزیشن کے پاس جلسے کی کال دینے کا جواز تھا۔

انہوں نے کہا کہ لیکن اب جبکہ پی ٹی آئی نے عدالتی ہدایات کے مطابق اپنا مقام پریڈ گراؤنڈ منتقل کر دیا ہے اور عدالت کو یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ کسی بھی رکن کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا، تو ہمیں بھی اپنا مارچ اور جلسہ ختم کر دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل بڑھتی ہوئی انتشار پسندی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور تحریک انصاف اور پی ڈی ایم دونوں سے اپنے پاور شوز منسوخ کرنے کی بھی درخواست کی تھی۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کو پریڈ گراؤنڈ، پی ڈی ایم کو پشاور موڑ پر جلسہ کرنے کی اجازت مل گئی

پی ٹی آئی نے اتوار کو شکرپڑیاں کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ پی ڈی ایم نے 28 مارچ کو اسلام آباد کے پشاور موڑ پر اپنا پاور شو کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مزید براں پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ چونکہ اسپیکر قومی اسمبلی نے 28 مارچ کو اجلاس بلایا ہے، اس لیے اپوزیشن کی قیادت اور اراکین کے لیے ریلی میں شرکت مشکل ہو جائے گی۔

دریں اثنا پیپلز پارٹی کے کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے پی ڈی ایم کی قیادت سے جلسہ عام کے انعقاد کے منصوبے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کی کہ اپوزیشن کو 27 تاریخ کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کے منصوبوں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، عمران خان ویسے بھی بھاگ رہے ہیں، انہیں تباہی پھیلانے، عدم اعتماد سے بھاگنے، جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے اور پھر ان کی سیاسی شہید بننے کی خواہش پوری نہ ہونے دیں، وہ سیاسی شہید نہیں بلکہ سیاسی موت کے مستحق ہیں۔

جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے موقع پر حریف سیاسی کیمپوں کے حامیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کا خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد: حکومت، اپوزیشن سے ریلیاں منسوخ کرنے کا مطالبہ

اس حوالے سے بیان میں کہا گیا کہ امن و امان کی خرابی نہ صرف قومی اسمبلی کے اندر آئینی سیاسی عمل کو نقصان پہنچائے گی بلکہ ایسا کرنا براہ راست غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہوگا اور اب حکمران جماعت اور اپوزیشن کے جلسوں کے لیے الگ مقامات مختص کر دیے گئے ہیں۔

البتہ اپوزیشن اور حکمران جماعت کے کارکنوں دونوں کے جلسہ گاہ کے مقامات کا راستہ تقریباً ایک ہی ہونے کی وجہ سے اس دن کارکنوں کے درمیان تصادم کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل 27 مارچ کو ڈی چوک پر ’10 لاکھ افراد‘ کے اجتماع کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی عوام اور اتحادی جماعتوں کے کارکنوں سے دھرنا دینے کے لیے 23 مارچ کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کرنے کی اپیل تھی۔

یوم پاکستان پر دارالحکومت کی طرف لانگ مارچ کے فیصلے کا اعلان پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی رہائش گاہ پر اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان سے معاملات طے پا گئے ہیں، پیپلز پارٹی کا دعویٰ

چونکہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے لہٰذا مولانا فضل الرحمٰن نے امید ظاہر کی تھی کہ پیپلز پارٹی بھی لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان کرے گی اور کہا تھا کہ انہوں نے شہباز شریف کے ہمراہ پیپلز پارٹی کو جلسے میں شرکت کی باضابطہ دعوت دی ہے۔

میں نے ماڈلز کے انتخاب کیلئے ’تعلیم اور معیار‘ کی بات کی، نادیہ حسین

پاکستان کو تیسرے ٹیسٹ میں شکست، سیریز آسٹریلیا کے نام

جب کھکری ڈوب رہا تھا تو کپتان نے عملے سے آخری بات کیا کہی؟