دسترخوان

مصنوعی مٹھاس کے استعمال اور کینسر کے خطرے میں ممکنہ تعلق دریافت

اکثر افراد اپنے کھانوں یا مشروبات جیسے چائے یا کافی میں مصنوعی مٹھاس کا استعمال کرتے ہیں تاکہ موٹاپے یا دیگر امراض سے تحفظ مل سکے۔

اکثر افراد اپنے کھانوں یا مشروبات جیسے چائے یا کافی میں مصنوعی مٹھاس کا استعمال کرتے ہیں تاکہ موٹاپے یا دیگر امراض سے تحفظ مل سکے۔

مگر کچھ اقسام کی مصنوعی مٹھاس یا سویٹنر کینسر کا خطرے بڑھانے سے جڑے ہوئے ہیں۔

یہ بات فرانس میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

متعدد غذائی مصنوعات اور مشروبات مصنوعی مٹھاس سے تیار کیے جاتے ہیں جن کو روزانہ لاکھوں افراد جزوبدن بناتے ہیں۔

فرنچ نیشنل انسٹیٹوٹ فار ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ اور سوبونی پیرس نورڈ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق ایک لاکھ سے زیادہ بالغ افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کای گیا تھا۔

ان افراد نے 2019 میں ایک آن لائن سروے کے دوران طبی تاریخ، غذا، طرز زندگی اور صحت کے ڈیٹا کو رپورٹ کیا تھا۔

محققین نے 24 گھنٹوں کے دوران مصنوعی مٹھاس استعمال کرنے والے افراد میں اس کے اثرات کی جانچ پڑتال کی۔

انہوں نے ان افراد میں کینسر کی تشخیص کی تفصیلات اکٹھی کیں اور مصنوعی مٹھاس و کینسر کے خطرے کے درمیان تعلق کا تجزیہ کیا۔

عمر، تعلیم، جسمانی سرگرمیوں، تمباکو نوشی، جسمانی وزن، قد، حالیہ برسوں میں جسمانی وزن میں اضافے، ذیابیطس، کینسر کی خاندانی تاریخ اور غذائی ذرائع سے توانائی کے حصول جیسے عناصر کو بھی مدنظر رکھا۔

محققین نے دریافت کیا کہ جو افراد زیادہ مقدار میں سویٹنر کا استعمال کرتے ہیں بالخصوص aspartame اور acesulfame-K کا، ان میں کینسر کا مجموعی خطرہ مصنوعی مٹھاس سے دور رہنے والوں سے بڑھ گیا۔

محققین نے تسلیم کیا کہ تحقیق کچھ پہلوؤں سے محدود تھی جیسے لوگوں نے غذائی عادات کو خود رپورٹ کیا جبکہ یہ افراد زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے صحت کے حوالے سے زیادہ شعور کے مالک بھی ہوسکتے ہیں۔

مگر انہوں نے کہا کہ ہمارے نتائج چینی کے محفوظ متبادل کے طور پر مصنوعی مٹھاس کے حق میں نہیں اور اس کے ممکنہ مضر اثرات پر نظر رکھی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان نتائج کی تصدیق کے لیے بڑے پیمانے پر تحقیقی کام کی ضرورت ہے مگر ان سویٹنر کے حوالے سے اہم معلومات ضرور حاصل ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پلوس میڈیسین میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل دسمبر 2019 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اکثر افراد چینی کے استعمال سے موٹاپے اور ذیابیطس جیسے امراض کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے مصنوعی مٹھاس کا استعمال کو ترجیح دینے لگتے ہیں، مگر یہ عادت بھی ان بیماریوں کا شکار بناسکتی ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مصنوعی مٹھاس کے استعمال کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور ساﺅتھ آسٹریلیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ اس مٹھاس اور جسمانی وزن میں اضافے اور ذیابیطس ٹائپ 2 کے درمیان تعلق دریافت کیا گیا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے 5 ہزار سے زائد بالغ افراد پر 7 سے 8 کے عرصے تک جاری رہنے والی تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ دن میں کم از کم 2 بار مصنوعی مٹھاس کا استعمال کرتے ہیں، ان میں اس سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں جسمانی وزن میں زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سویٹنرز جسمانی وزن میں کمی کے لیے اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں، مگر ایسا اسی وقت ممکن ہے جب غذا کا انتخاب درست ہے، مگر جو لوگ ان مصنوعات کا استعمال کرتے ہوئے ہیں وہ اکثر چینی بھی شوق سے کھاتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ مصنوعی مٹھاس سے معدے میں موجود بیکٹریا میں تبدیلیاں آسکتی ہیں جس کے نتیجے میں وزن میں اضافے اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کے خطرات بڑھتے ہیں۔

تحقیق میں مشورہ دیا گیا کہ جسمانی وزن میں کمی کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ کم کیلوریز والی مصنوعی مٹھاس کی بجائے صحت بخش غذا جیسے دودھ کی مصنوعات، مچھلی، دالیں، سبزیاں، پھل، سادہ پانی اور دیگر اجناس کو ترجیح دی جائے۔

میٹھا چھوڑنے سے جسم کو حاصل ہونے والے 8 اہم فوائد

مصنوعی مٹھاس کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

ڈائٹ مشروبات ذیابیطس کا شکار بنانے کے لیے کافی