انسانی خون میں پہلی بار پلاسٹک کے ننھے ذرات دریافت
سائنسدانوں نے پہلی بار انسانی خون میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا ہے۔
درحقیقت انہوں نے جن افراد کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی ان میں سے لگ بھگ 80 فیصد میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا گیا۔
اس دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک ذرات خون کے ذریعے پورے جسم میں سفر کرسکتے ہیں اور اعضا میں اکٹھے ہوسکتے ہیں۔
صحت پر ان کے اثرات کا تو ابھی علم نہیں مگر محققین فکرمند ہیں کہ ان ذرات سے انسانی خلیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے جیسا لیبارٹری میں ثابت ہوا۔
اسی طرح فضائی آلودگی کے ذرات کے بارے مٰں پہلے ہی علم ہے کہ وہ جسم میں داخل ہوکر ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بنتے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے 22 افراد کے عطیہ کردہ خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا جو کہ سب صحت مند تھے۔
محققین نے 17 افراد کے نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات کو دریافت کیا۔
50 فیصد نمونوں میں اس پلاسٹک کے ذرات تھے جس کا استعمال پانی کی بوتلوں کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے جبکہ ایک تہائی میں پولی اسٹرینی ذرات دریافت ہوئے۔
یہ قسم فوڈ پیکنگ اور دیگر مصنوعات کے لیے استعمال ہوتی ہے، ایک چوتھائی کے خون کے نمونوں میں پولی تھیلین قسم کو دریافت کیا گیا جس سے پلاسٹک بیگ تیار کیے جاتے ہیں۔
نیدرلینڈز کی وریجے یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب انسانی خون میں پولیمر ذرات کو دریافت کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مگر ہمیں تحقیق کو مزید بڑھانا ہوگا اور زیادہ نمونوں کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی اور اس حوالے سے تحقیقی کام پر کام کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ یقیناً تشویشناک ہے، یہ ذرات پورے جسم میں گردش کرسکتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل انوائرمنٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل اکتوبر 2020 میں آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ننھے بچے فیڈنگ بوتلوں کے ذریعے پلاسٹک کے لاکھوں کروڑوں ننھے ذرات نگل لیتے ہیں۔
تحقیق میں زور دیا گیا کہ اس حوالے سے مزید جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک کے ان ننھے ذرات سے انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک اور حالیہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات خون کے سرخ خلیات کی اوپری جھلی سے منسلک ہوکر ممکنہ طور پر آکسیجن کی فراہمی کی صلاحیت کو محدود کرسکتے ہیں۔
یہ ذرات حاملہ خواتین کے آنول میں بھی دریافت ہوئے۔