یوکرین سے وطن واپس آنے والے پاکستانیوں کی روداد
دنیائے سیاست میں جیو پولیٹکس کی اہمیت ہمیشہ سے ہے اور رہے گی۔ پہلی جنگِ عظیم ہو یا دوسری جنگِ عظیم، یہاں تک کہ سرد جنگ میں بھی دنیا کے نقشے پر واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کا نقشہ 1990ء میں اس وقت تبدیل ہوا جب افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہوئی اور پھر سوویت یونین کئی ٹکڑوں میں بٹنے کے بعد رشیئن فیڈریشن یا روس بن گیا اور دیوارِ برلن صرف تاریخ اور کتابوں کا حصہ بن گئی۔
1990ء کی دہائی کے بعد امریکا کی کوشش رہی کہ مشرقی یورپ کے ممالک کو کمیونسٹ بلاک کے اثرات سے نکالا جائے اور نیٹو اور یورپی یونین کا حصہ بنا کر اپنے اثر کو مزید بڑھایا جائے، اور ان کوشش کے نتیجے میں مشرقی یورپ کے کئی ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔
اس دوران خیال کیا جارہا تھا کہ سرخ ریچھ پہلے جیسا طاقتور نہیں رہا لیکن پاور پولیٹکس کی کشمکش نے سوئے ہوئے ریچھ کو پھر سے جگا دیا ہے۔ اس کا نتیجہ کبھی آرمینیا اور آزربائیجان کے درمیان نگورنو کاراباخ کے تنازع کی صورت میں نکلا تو کبھی روس، جارجیا اور بیلا روس کے درمیان کشیدگی کی گونج عالمی منظرنامے کا حصہ بنی۔ حالیہ روس-یوکرین جنگ بھی اسی پس منظر کے ساتھ آگے بڑھتی نظر آرہی ہے۔
آج روس-یوکرین جنگ کو شروع ہوئے کم و بیش مہینہ ہوا چاہتا ہے اور یہ جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ امریکا اور یورپی ممالک سیاسی، سماجی، معاشی یہاں تک کہ کھیلوں کے ذریعے بھی مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں لیکن روس اپنے قدم نہیں روک رہا۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 20 لاکھ لوگ یوکرین سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔ 24 فروری سے آج تک جہاں مقامی یوکرینی جنگ زدہ ماحول سے نکلنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں وہیں غیر ملکی شہری بھی پناہ کی تلاش میں ہیں۔ ان میں سے اکثریت اپنے اپنے وطن واپس جانا چاہتی ہے لیکن جنگ کے ماحول میں نقل و حمل محدود ہوچکی ہے۔ نو فلائی زون ہونے کی وجہ سے پروازیں مل نہیں رہیں اور محفوظ علاقوں تک پہنچنا بھی ایک دشوار مرحلہ بن چکا ہے۔
اس جنگی بحران میں جہاں کئی ممالک کے طلبہ و طالبات اور شہریوں کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا وہیں پاکستانی شہری بھی اس ہنگامی صورتحال میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
دفترِ خارجہ نے 3 مارچ کی ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ یوکرین میں کُل 7 ہزار پاکستانی رہائش پزیر تھے، اور اب تک کتنے پاکستانی بحفاظت پاکستان لوٹ چکے ہیں اور کتنے وہیں ہیں اس کے حتمی اعداد و شمار موجود نہیں۔
یوکرین سے پاکستان واپس آنے والوں سے ہم نے رابطہ کیا اور ان حالات کو سمجھنے کی کوشش کی جن سے گزر کر وہ واپس لوٹے ہیں۔
لوٹنے والوں میں 3 پاکستانی پیشے کے لحاظ سے انجینئیر تھے۔ یہ لوگ ’پاور چائنا‘ کے ونڈ ٹربائن پروجیکٹ پر کام کرنے یوکرین کے شہر نیکولائف پہنچے تھے۔ یہ یوکرین کا جنوبی شہر ہے جو بحر اسود کے ساتھ واقع ہے۔ وہ تینوں دوست ایک ہی فلائٹ سے یوکرین پہنچے تھے اور اب مارچ میں ان کی واپسی بھی ایک ساتھ ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اپنی کمپنی کی مدد سے پولینڈ کے بجائے رومانیہ کے راستے سے پاکستان واپس پہنچے ہیں۔
حیدرآباد کی ریونیو کالونی کے رہائشی زاہد چانڈیو نے مہران یونیورسٹی سے مکینیکل انجینیئرنگ کی ڈگری لی ہے۔ ان کی یہ دوسری نوکری تھی لیکن کسی غیر ملکی پروجیکٹ پر کام کرنے کا یہ ان کا پہلا تجربہ تھا۔ کراچی کے رہائشی محمد ثاقب بھی زاہد کے ساتھ یوکرین میں پھنس گئے تھے۔ انہوں نے بھی مہران یونیورسٹی سے بی ای کیا ہے۔ اس کہانی کو ہم ثاقب اور زاہد سے ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو سے آگے بڑھائیں گے۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم 28 دسمبر 2021ء کو یوکرین پہنچے تھے۔ یوکرین میں شہر کو ’اوبلاسٹ‘ کہا جاتا ہے۔ ہم نیکولائف کے اوبلاسٹ ’پریچینو‘ (Parituna (village میں کام کر رہے تھے۔ وہاں لوگ اچھے تھے۔ ہم سوچ کر گئے تھے کہ اپنے گھر والوں سے دُور ضرور ہیں لیکن اب ہمیں ایک ڈیڑھ سال تک کئی غیر ملکی باشندوں کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔ ہمارے اس پروجیکٹ پر یوکرینی، ترکی، چینی اور آزربائیجان کے انجینیئر تھے۔ ہمیں ایک ڈیڑھ ماہ ہی ہوا تھا کہ جنگ کے بادل چھانے لگے لیکن ہمارے پروجیکٹ پر کام چلتا رہا۔ ہمیں امید تھی کہ جنگ کی بس باتیں ہی ہیں، جنگ ہوگی نہیں۔ لیکن اب ان دنوں کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہم والدین کی دعاؤں سے بحفاظت وہاں سے نکلیں ہیں‘۔
جنگ کے چند ہفتوں کے درمیان وہاں کیا دیکھا؟
ثاقب نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے پہلے کبھی اتنے قریب سے جنگ کا ماحول نہیں دیکھا تھا۔ سوچیں کہ 24 فروری کو جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور 25 فروری کی رات ہمارے بہت ہی قریب 2 زوردار دھماکوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ وہ بہت دہشت اور خوف کے دن تھے۔ سارے گاؤں میں بلیک آؤٹ رہا۔ ننھی سی لائٹ بھی کہیں نہیں تھی۔ پورے گاؤں میں سخت سردی اور ہُو کا عالم تھا۔ اس کے بعد سے ہم سب نے راتیں تہہ خانے میں موجود بنکر میں گزاریں۔ یہ بنکر ہمارے رہائشی گھر میں موجود تھا۔ سب کمرشل علاقے بند کردیے گئے تھے۔ ہم شروع سے ہی ایک دو ہفتوں کے لیے کھانے پینے کا سامان رکھتے تھے۔ اتفاق سے جب جنگ چھڑی اور باقاعدہ بمباری شروع ہوئی تو ایک دن پہلے ہی ہم کھانے پینے کا سامان لے کر آئے تھے‘۔
جنگ زدہ ماحول میں کراچی واپسی کا سفر
ثاقب نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم پولینڈ تک سفر نہیں کرسکتے تھے کیونکہ وہ بالکل مخالف سمت میں تھا۔ اس لیے ہماری کمپنی نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم رومانیہ کا راستہ اختیار کریں۔ رومانیہ اور یوکرین کی سرحد پر مالدووا نامی ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ یہ ہمارے رہائشی گاؤں سے قریب بھی تھا۔ اس لیے ہم نے مالدووا کی سمت سفر شروع کیا۔ اس سفر میں ہم نے کئی بار راکٹ اوپر سے گزرتے اور قریب گرتے دیکھے۔ سمجھیں کہ اللہ نے ہمیں زندگی دینا تھی اس لیے ہم آج زندہ ہیں۔
’راستے میں ہمیں ٹینک بھی ملے اور بھاری نفری بھی۔ یوکرینی فوجی دستے بھی ملے اور روسی افواج سے بھی ہمارا سامنا ہوا۔ وہ معلوم کرتے تھے کہ مسافر کون ہے۔ پھر وہ ہمیں چیک کرتے اور آگے جانے دیتے۔ راستے میں اکثر عمارتیں اور گھر گولا باری سے ٹوٹ چکے تھے۔ راستے اور رابطہ سڑکیں بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی تھیں‘۔
زاہد نے ثاقب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’جنگ ہمارے قریب ہی تھی۔ وہاں لوگوں کا بُرا حال تھا۔ جب دھماکے ہوتے تھے تو ہمارے کمروں کی کھڑکیاں بُری طرح لرز جاتی تھیں۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ ہمارے بالکل قریب ہی دھماکا ہوا۔ اللہ کی رحمت تھی کہ ہم بچ گئے ورنہ موت یقینی تھی۔ کئی بار لگا کہ یہ ہمارا آخری دن ہے۔ ہم کسی بھی وقت مرسکتے ہیں، کسی بھی وقت کوئی بم یا راکٹ ہمارے گھر پر گر سکتا ہے۔ راستے محفوظ نہیں تھے، ہر 10، 15 منٹ بعد یوکرینی فوج چیکنگ کر رہی تھی‘۔
مقامی یوکرینی لوگ کیسے ہیں؟
انہوں نے یوکرین کے لوگوں کے بارے میں بتایا کہ یوکرینی لوگ بہت اچھے ہیں۔ انہیں بہت دلچسپی تھی کہ کون سا ملک ان کے ساتھ ہے اور کون سا ملک ان کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم سے کئی بار سوال کیا گیا کہ آپ کے وزیرِاعظم روس پہنچے اور اس کے بعد ہی جنگ شروع ہوئی، تو ایسا کیوں؟ ہم نے یہی کہا وہ تو امن کی بات کرنے آئے تھے۔ ان کا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔
’مقامی لوگوں کی زندگی گزارنے کا انداز ہم سے الگ تھا۔ وہاں رات 8، 9 بجے سب سو جاتے تھے اور صبح جلدی اٹھتے تھے۔ ایک چیز یہ بھی تھی شاید وہ لوگ جنگ کے لیے پہلے سے تیار تھے۔ وہاں گھروں کے تہہ خانوں میں بنکر بنے ہوتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ مقامی آبادی ان میں منتقل ہوگئی۔ بلکہ یوکرینی فوج نے آنے کے بعد کچھ علاقے خالی کروائے اور لوگوں کو اسکولوں میں بنے بنکر میں منتقل کر دیا تھا۔
’دکانیں کبھی کھلتیں اور کبھی بند رہتیں۔ یہ گاؤں بحر اسود سے قریب تھا اس وجہ سے روس کی بحری افواج نے اس طرف پش قدمی شروع کردی تھی۔ خبریں تھیں کہ روسی فوجیں سمندری راستے سے یہاں پہنچنے والی ہیں اسی لیے ہم پولینڈ جانے کے بجائے رومانیہ سے نکل کر آئے۔
’ہم امن کے دنوں میں وہاں پہنچے تھے اور پھر جنگ کے دنوں میں بھی ان لوگوں کو دیکھا۔ وہاں کے گاؤں ہمارے گاؤں سے بہت بہتر تھے، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے شہروں سے بھی بہتر تھے۔ بجلی جاتی نہیں تھی اور سڑکیں کراچی کی سڑکوں سے بھی اچھی تھیں۔ لوگ ملنسار ہیں، ہم جب تک وہاں رہے تو ہماری مالک مکان ہمارا خیال رکھتی رہیں۔ شروع میں ہم اوپر رہتے تھے اور باقی گاؤں کی آبادی بنکر میں۔ وہ دن میں کئی بار ہم سے پوچھتے تھے کہ کھانے پینے کی چیزیں ہیں؟ کسی اور چیز کی ضرورت تو نہیں؟‘
ثاقب یوکرین کے لوگوں کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ مہمان نواز ہیں، ان میں انسانیت ہے، اصول ہیں اور انصاف بھی۔ یہ سمجھ لیں ہم جہاں رہ رہے تھے وہاں کی مالک مکان ہمارا بالکل ماں کی طرح خیال رکھتی رہیں‘۔
سفارتخانے کا کردار
سفارتخانے کے کردار کے بارے میں ہمارے سوال پر ثاقب نے جس طرح جواب دینا شروع کیا اس سے لگا کہ وہ سفارتخانے کے کردار سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 24 فروری کو جنگ کا آغاز ہوا اور اسی دن سے پاکستانی سفارتخانے پر کال کرنا شروع کردی۔ رابطہ ہونے پر ہمیں کہا گیا کہ مغربی شہر ٹرنوپل (Ternopil) پہنچیں۔ جہاں سے ہم پولینڈ جاتے اور وہاں سے فلائٹ لے کر کراچی پہنچتے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے لیے وہاں پہنچنا زیادہ خطرناک تھا۔ سڑک کے ذریعے جاتے تو بھی 2 دن لگتے۔ جگہ جگہ جنگ ہو رہی تھی اور سڑکیں ٹوٹیں ہوئی تھیں یعنی 2 دن کا سفر بھی کئی دنوں میں طے ہوتا اور جان کا خطرہ الگ تھا۔
زاہد نے بھی ثاقب کی تائید کی اور بتایا کہ پاکستانی سفارتخانے سے جس طرح کے تعاون کی ہم امید لگا رہے تھے، ہمیں ویسا نہیں ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم آج اپنے گھر میں ہیں تو صرف اپنی کمپنی کی بدولت۔ کمپنی نے ہر مرحلے پر ہمارا ساتھ دیا۔ ہماری کمپنی نے شروع میں ہی کہا کہ ہمیں شاید 8، 10 دن لگ جائیں۔ آپ اپنے سفارتخانے سے رابطہ کریں اگر وہ آپ کو نکال سکتے ہیں تو سفارتخانے کے تحت جلدی نکل جائیں۔ ہم بھی پریشان تھے اور جلدی نکلنا بھی چاہتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ گھر والے پریشان تھے‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارے پروجیکٹ پر 4 ممالک کے لوگ کام کر رہے تھے۔ ان میں سے چینی انجینیئروں کو کوئی فکر نہیں تھی۔ انہیں تو مسلسل خبریں مل رہی تھیں کہ کہاں کیا ہو رہا ہے اور اب کہاں جانا ہے۔ ترکی کے ساتھی اتنے آرام سے نکل گئے کہ کیا بتاؤں۔ آپ سوچیں ترک سفارتخانہ اپنے لوگوں سے مسلسل رابطے میں تھا۔ انہوں نے پہلے آن لائن فارم پُر کروا لیا تھا۔ اس کے بعد اپنے لوگوں سے جہاں وہ تھے وہاں سے نکلنے کے اوقات، راستے اور اگلی ٹیم سے رابطے میں رہنے کے لیے کہا۔ کن راستوں پر بمباری ہوسکتی ہے اور کن راستوں سے گزر کر نہیں جانا، کون سی گاڑی بہتر رہے گی اور آگے کیا کیا مشکلات آسکتی ہیں ان سب کے لیے تیار رہنے کا بھی کہا۔ اس وقت ہمیں لگ رہا تھا کہ ہمارا تو یہاں کوئی نہیں جبکہ ترکی کے لوگ اپنے ہم زبان اور ہم وطنوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
’جس جگہ انہیں پہنچنے کے لیے کہا گیا تھا وہاں سفارتخانے کا عملہ ان کے لیے تیار کھڑا تھا۔ انہوں نے ہی ان لوگوں کو رومانیہ کی سرحد سے داخل کروایا بلکہ ترکی والوں کے لیے تو ویزہ بھی درکار نہیں تھا۔ وہ باآسانی رومانیہ سے ہوتے ہوئے ترکی پہنچ گئے۔ چینیوں کے لیے چارٹرڈ فلائٹس چل رہی تھیں۔ اب گروپ میں ہم پاکستانی ہی رہ گئے جو اپنے سفارتخانے کے بجائے اپنی کمپنی کے رحم و کرم پر تھے۔ ہم انہی کے ساتھ نکل کر آئے ہیں۔ ان کے پاس باقاعدہ ایک پلان تھا۔
’ہم نے مالدووا کا راستہ اختیار کیا۔ یہ مشرقی یورپ کا ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن یہاں سے فلائٹ نہیں مل رہی تھیں کیونکہ اس کی سرحد بھی براہِ راست یوکرین سے ملی ہوئی ہے اور وہاں فلائٹ ٹریفک رکی ہوئی تھی۔ ہم تینوں پاکستانی مالدووا میں 8، 10 دن رکے پھر وہاں سے نکل کر رومانیہ پہنچے اور پھر براستہ دبئی کراچی پہنچے۔ آج ہم کراچی میں ہیں تو اپنی کمپنی کی ہی وجہ سے ہیں۔‘
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔