پاکستان میں کب کب آئین کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کیا گیا؟
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ریفرنس کے ذریعے عدالت کی رائے لینے کی کہانی تیسرے گورنر جنرل غلام محمد سے شروع ہوتی ہے، اور 1955ء سے لے کر 2022ء تک کوئی درجن بھر ریفرنسز عدالتِ عظمیٰ میں آئے ہیں۔
ریفرنس کے ذریعے عدالتِ عظمیٰ سے رائے لینے کا سلسلہ تب سے شروع ہوا جب ملک میں صدر کا عہدہ وجود میں نہیں آیا تھا اور نہ ہی عدالتِ عظمیٰ کو سپریم کورٹ کہا جاتا تھا، جی بالکل سب سے پہلا ریفرنس 1955ء میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے فیڈرل کورٹ کو بھیجا تھا اور رائے طلب کی تھی۔
ہم غلام محمد کے ریفرنس کا ذکر آخر میں کریں گے، پہلے کچھ ان ریفرنسز کا ذکر کرتے ہیں جو میں نے خود عدالتِ عظمیٰ میں بیٹھ کر کور کیے ہیں اور ساری صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
17ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں
ویسے عدالتِ عظمیٰ میں بطور صحافی میرا پہلا رپورٹ کردہ مقدمہ 17ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کا تھا۔ ان درخواستوں میں جنرل پرویز مشرف کی متعارف کردہ 17ویں ترمیم کو کالعدم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ یہ 2004ء کا سال تھا، جب میں نے وفاقی دارالحکومت میں صحافت شروع کی۔ جسٹس ناظم الدین صدیقی کی سربراہی میں 5 ججوں پر مشتمل لارجر بینچ وہ مقدمہ سن رہا تھا۔ 14 اپریل 2005ء کو عدالتِ عظمیٰ نے آئینی ترامیم کے خلاف تمام درخواستوں کو خارج کردیا اور 17ویں ترمیم کو جائز قرار دے دیا۔
اگر صدارتی ریفرنسز سے متعلق بات کریں تو 1973ء کے آئین کی شق 186 صدرِ مملکت کو کسی آئینی اور قانونی پیچیدگی کی صورت میں عدالتِ عظمیٰ سے قانونی رائے لینے کا اختیار تفویض کرتی ہے۔ یہ آئینی شق کہتی ہے کہ 'اگر کسی وقت صدرِ مملکت مناسب خیال کریں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل قانونی مسئلے کے بارے میں عدالتِ عظمیٰ سے رائے لی جائے تو وہ اس مسئلے کو غور کے لیے عدالتِ عظمیٰ بھیج سکتے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ اس قانونی معاملے پر غور کرے گی اور اس پر اپنی رائے سے صدرِ مملکت کو مطلع کرے گی'۔
پاکستان کے سابقہ آئین بشمول 1956ء، 1962ء اور عبوری آئین 1972ء میں بھی صدرِ پاکستان کو یہ اختیارات دیے گیے تھے کہ وہ کسی بھی آئین اور قانونی ابہام کی صورت میں عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کرسکتے ہیں۔
حسبہ بل کے خلاف ریفرنس
سپریم کورٹ میں جو سب سے پہلا ریفرنس میں نے کور کیا وہ تب کے صوبے سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) اسمبلی سے منظور کردہ حسبہ بل کے خلاف ریفرنس تھا۔ یہ ریفرنس اس وقت کے آرمی چیف اور صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف کی طرف سے عدالت کو بھیجا گیا تھا۔ عدالتی ریکارڈ میں اسے ریفرنس نمبر دو 2005 کہا جاتا ہے۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے اس ریفرنس کی سماعت کی تھی۔
حسبہ بل پر ان دنوں بہت تنقید ہوئی اور اسے ملاؤں کا مارشل لا اور طالبان ازم کے نام دیے گئے۔ حسبہ بل کے خلاف ریفرنس سے پہلے اس بل کے خدوخال بیان کرنا ضروری ہیں۔
صوبائی اسمبلی سے منظور کردہ بل کے تحت صوبائی، ضلعی اور تحصیل سطح پر محتسب مقرر کرنا اور مشاورتی کونسل اور حسبہ پولیس مقرر کرنا اس مجوزہ قانون کا حصہ تھا۔ تمام محتسب کے ذمے یہ کام تھا کہ عوام کو قرآن اور سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے کی تلقین کریں، سماجی برائیوں سے روکیں اور محتسب کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی صورت میں 6 ماہ قید اور 3 ہزار روپے جرمانے کی سزائیں بھی تجویز کی گئی تھیں۔
یہ بل صوبائی اسمبلی سے 2 مرتبہ منظور ہوا تھا۔ پہلی بار جب اسمبلی نے اس کی منظوری دی تو اس کو چیلنج کیا گیا جس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا۔ کچھ اعتراضات دُور کرکے دوبارہ اس بل کی منظوری لی گئی تو باوردی صدر نے اسے ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ بھیج دیا۔
صدرِ مملکت کے اس ریفرنس میں جو سوالات اٹھائے گئے وہ کچھ یہ تھے کہ
- کیا یہ بل متبادل عدالتی نظام قائم نہیں کرتا؟
- کیا بل کی تمام شقیں قانون اور آئین کے مطابق ہیں؟
- کیا حسبہ بل آئین کے خلاف نہیں؟
- کیا حسبہ بل یا اس کی کوئی شق بنیادی حقوق کے خلاف نہیں؟
- کیا گورنر اس بل پر دستخط کرسکتے ہیں؟
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے اس ریفرنس کی سماعت کی۔ 20 فروری 2007ء کو سپریم کورٹ نے اس ریفرنس پر اپنی رائے دے کر حسبہ بل کی 3 شقوں کو خلافِ آئین قرار دے دیا۔ اس رائے میں محتسب کے تقرر کے معیار اور محتسب کو توہینِ عدالت جیسے اختیارات تفویض کرنے کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ اس قانون کے ذریعے ایک خاص فرقے کو سہولت دی جا رہی ہے۔ اس بینچ میں موجود جسٹس سردار رضا خان نے اس پر الگ نوٹ بھی لکھا تھا۔
جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس
ریفرنس نمبر 2/2005 سے لیکر 2011ء تک آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں قانونی رائے کے لیے کوئی ریفرنس نہیں آیا البتہ جنرل پرویز مشرف نے 9 مارچ 2007ء میں آرٹیکل 209 کے تحت اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس بھیجا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں اِس وقت بھی ججوں کے خلاف کثیرالتعداد ریفرنس موجود ہیں، لیکن جوڈیشل کونسل صدر کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھتی ہے، جیسا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز۔ لیکن ہم یہاں عدالت کی رائے یعنی ایڈوائزری جورسڈکشن کے حوالے سے بھیجے گیے ریفرنسز کی بات کر رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف ریفرنس
افتخار محمد چوہدری کے پاس حسبہ بل کے بعد دوسرا اہم ریفرنس 2011ء میں اس وقت کے صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے بھیجا۔ 2 اپریل 2011ء میں وفاقی کابینہ کی منظوری سے صدرِ مملکت نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے پر عدالتی رائے جاننے کے لیے ایک ریفرنس بھیجا۔
ابتدائی طور پر اس ریفرنس میں یہ سوال پوچھا گیا کہ عدالتِ عظمیٰ ذوالفقار علی بھٹو کو ملنے والی سزائے موت کے عدالتی مقدمات کی کاروائی کا ازسرِ نو جائزہ لے کر اپنی رائے دے۔ مقصد تھا کہ کیا آج کی سپریم کورٹ ذوالفقار بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو جائز سمجھتی ہے یا اسے عدالتی قتل قرار دیتی ہے۔ اس وقت کے ترجمان ایوانِ صدر فرحت اللہ بابر نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ عدالت کو اپنی غلطی درست کرنے کے لیے ریفرنس کی شکل میں ایک موقع دیا گیا ہے۔
اس ریفرنس میں کئی نشیب و فراز آئے۔ ریفرنس کی پیروی کے لیے پیپلز پارٹی حکومت کی طرف سے وزیرِ قانون بابر اعوان کو منتخب کیا گیا تھا اور انہوں نے پہلی سماعت میں عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ اس تاریخی مقدمے کی پیروی کے لیے اپنی وزارت کی قربانی دے رہے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے انہوں نے چیف جسٹس کو بھی وزارت سے استعفے کی کاپی پیش کی تھی۔ یہ بالکل اسی طرح تھا جس طرح فروغ نسیم موجودہ دور میں 2، 3 بار کرچکے ہیں۔
سج دھج کر پیروی کرنے والے بابر اعوان یہ بھول گئے کہ ریفرنس کی تیاری میں ان سے کیا غلطی ہوئی ہے۔ بابر اعوان نے شاید اعتزاز احسن، فاروق نائک اور سردار لطیف کھوسہ سمیت کسی کو یہ ریفرنس نہیں دکھایا تھا اور نہ ان کی رائے شامل کی تھی، اسی لیے ریفرنس کی پہلی سماعت پر ہی عدالت نے بنیادی اعتراض اٹھا دیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس ریفرنس کی سماعت کے لیے 11 رکنی بینچ تشکیل دی لیکن عدالت نے ریفرنس کو پڑھنے کے بعد یہ اعتراض اٹھایا کہ اس ریفرنس میں کوئی قانونی سوال ہی نہیں۔ آئین کہتا ہے کہ اگر صدر کسی آئینی قانونی معاملے پر ابہام محسوس کرے تو سپریم کورٹ سے رائے لے سکتے ہیں۔ اس اعتراض کے بعد کابینہ کی پھر بیٹھک ہوئی اور ریفرنس کے لیے سوالات مرتب کیے گئے۔
7 سوالوں سے بھرپور ایک ریفرنس ترمیم کے بعد عدالت کے سامنے لایا گیا، جس میں
- پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو سزائے موت دینے کا لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ان بنیادی حقوق کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے جن حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے؟ بنیادی حقوق کے حوالے سے آرٹیکل 4، 8، 9، 10 اے، 14 اور 25 کا حوالہ دیا گیا۔
- دوسرا سوال تھا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی سزا کو ایسا فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے جس کو تمام عدالتیں قبول کرنے کی پابند ہوں یا ایسا فیصلہ جو آرٹیکل 189 کے اصولوں کے عین مطابق ہو، اور باقی عدالتوں کو کہا جائے کہ اس فیصلے کی نظیر قائم کی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو اس کے اثرات اور نتائج کیا ہوں گے؟ کیا مخصوص حالات میں بھٹو کو سزا دینا اور اس سزا کو بحال رکھنا جائز تھا؟ یا اس کو ذوالفقار بھٹو کے خلاف تعصب رکھنے پر عدالتی قتل مانا جائے گا؟
- تیسرا اہم سوال تھا کہ کیا یہ عدالتی فیصلے قرآن پاک اور سنت نبوی ﷺ کے وضع کردہ اسلامی اصولوں کے مطابق تھے؟اس سوال میں قرآن پاک کی مختلف سورتوں جیسے سورۃ النسا، سورۃ البقرہ، سورۃ المائدہ، العراف، النحل، طحٰہ اور احادیث کا حوالہ دیا گیا۔
- آخری سوال یہ تھا کہ کیا اس مقدمے کے شواہد/مواد سے اخذ کیے گئے نتائج اور نتائج کی بنیاد پر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سزا اور سزا کا حکم درج کیا جا سکتا تھا؟
سولات مرتب ہوئے لیکن پتہ نہیں کیوں سپریم کورٹ ان سوالات پر مبنی ریفرنس کو چلانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہ ایسا ریفرنس تھا جس میں قانون اپنی جگہ لیکن سب سے بڑا سیاسی فائدہ مقدمے کی پیروی کرنے والے بابر اعوان اٹھانا چاہتے تھے۔ ان دنوں جب ان سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ ریفرنس کے بعد وزارت سنبھالنے کے بارے میں کیا خیال ہے تو وہ ایک دم یہ جواب دیتے کہ اب مانگنے کی باری میری ہے مطلب کہ حکومت کو میرے پیچھے چلنا پڑے گا، اور واقعتاً اس وقت بابر اعوان آگے آگے جبکہ حکومت ان کے پیچھے پیچھے تھی۔
ریفرنس جب دوبارہ چلنا شروع ہوا تو بابر اعوان وکلا کے جتھے کی صورت میں سپریم کورٹ میں پیش ہوتے، ان کے استقبال میں اس وقت کی آدھی کابینہ عدالت کے باہر کھڑی ہوتی، اور یہ پروٹوکول وکیل کی طرف سے باقاعدہ مانگا گیا تھا۔ میں نے مخدوم امین فہیم جیسے شریف النفس انسان کو بھی بابر اعوان کے پروٹوکول میں انتظار کرتے دیکھا۔
عدالت کے اندر اور باہر وزرا کی قطار لگانا شاید عدالت کو اثرانداز کرنے کی کوشش تھی یا بابر اعوان اس پروٹوکول کے ذریعے خود کو بڑا وکیل باور کروانا چاہتے ہیں، کچھ بھی ہو مگر ریفرنس میں ہر نئے دن نئی رکاوٹ آتی دکھائی دی۔
افتخار محمد چوہدری اس ریفرنس کو آئینی یا قانونی سوالات کے بجائے کرمنل پروسیڈنگ کا رنگ دینے کی کوشش کرتے رہے اور اس کو طوالت دیتے رہے۔ پھر انہوں نے ذوالفقار بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروانے والے مدعی احمد رضا قصوری کو بھی سننے کا موقع دیا، یوں نیا سوال ابھرا کہ اس مقدمے میں باقی لوگوں کو بھی سزائیں سنائی گئی تھیں تو ان کے ورثا کو بھی سننا پڑے گا۔ اس طرح ریفرنس التوا کا شکار ہونے لگا۔ 2 اپریل 2011ء میں ریفرنس فائل ہوا مگر جون کے وسط تک اس ریفرنس میں ایسا کوئی موڑ نہیں دیکھا گیا جس سے لگے کہ عدالت پوچھے گیے سوالات کو حل کرنے کی خواہشمند ہے۔
پھر یہ ہوا کہ میمو گیٹ کیس کے دوران بابر اعوان کو جب توہین عدالت سے متعلق نوٹس جاری ہوا تو انہوں نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران پنجابی کا یہ شعر پڑھا ’نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیاں کیوں سونیا دا گلہ کراں میں تے ست واری بسم اللہ کراں۔‘
اس شعر کے جواب میں عدالت نے ان کا لائسنس عارضی طور پر معطل کردیا اور ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی شروع ہوگئی۔
یہ سوال آج بھی جواب کا متقاضی ہے کہ کیا بابر اعوان کو سپریم کورٹ سے عارضی طور پر باہر کرنے کا سبب یہ مقدمہ تھا؟ بعد میں اس ریفرنس کی ذمہ داری اعتزاز احسن کے کاندھوں پر آگئی۔ اعتزاز احسن نے بس ایک درخواست دی کہ وہ اس ریفرنس میں وفاق کی طرف سے پیش ہوں گے لیکن ریفرنس آگے نہیں بڑھ سکا۔
یہ ریفرنس مسلسل زیرِ التوا رہا اور اس کے مقابلے میں باقی مقدمات میں تیزی آگئی۔ میمو گیٹ پر کمیشن بن گیا، کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے خصوصی بینچ بنایا گیا، صدر کے خلاف سوئس حکومت کو خط لکھنے کا عدالتی حکم نہ ماننے پر منتخب وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہینِ عدالتِ کا مقدمہ شروع ہوا اور ان کو نااہل کرکے گھر بھیج دیا گیا۔ گیلانی کی جگہ آئے راجا پرویز اشرف کو بھی پیشیاں بھگتنا پڑیں۔
عدالتِ عظمی میں جتنے ریفرنس آئے عدالت نے ان پر اپنی رائے دی، اگر نہیں چلا تو ذوالفقار بھٹو کی سزا پر اٹھائے گئے سوالات پر مبنی ریفرنس نہیں چلا۔ پیپلز پارٹی نے ریفرنس چلانے کے لیے دوبارہ درخواست بھی دائر کی، اور افتخار محمد چوہدری کے بعد 6 چیف جسٹس آئے اور رٹائر ہوئے مگر یہ ریفرنس اب بھی عدالت کی ملکیت بنا ہوا ہے۔
ججوں کی سینیارٹی سے متعلق ریفرنس
صدر آصف علی زرداری نے اسی ریفرنس کے ہوتے ہوئے ایک اور ریفرنس بھی دائر کیا اور اس پر بھی رائے آگئی۔ یہ ریفرنس 2012ء میں دائر ہوا جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 ججوں کی سینیارٹی کا معاملہ اٹھایا گیا تھا۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس انور کانسی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کی جبکہ وزارتِ قانون کا خیال تھا کہ جسٹس ریاض احمد سینئر جج ہیں اور ان کو ہی چیف جسٹس ہونا چاہیے۔
جوڈیشل کمیشن کی سفارش کے باوجود وزارتِ قانون نے ہائیکورٹ کے نامزد چیف جسٹس کا نوٹیفیکشن جاری نہیں کیا اور پھر اکرم شیخ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست لیکر چلے گیے۔ بابر اعوان نے صدر زرداری کو اس معاملے پر صدارتی ریفرنس دائر کرنے کی تجویز دے دی، جس میں بنیادی سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ اگر کوئی تقرری اس نوعیت کی ہو جسے صدرِ مملکت یہ سمجھتے ہوں کہ اس میں آئین یا قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا آئین اور قانون کو نظر انداز کیا گیا ہے تو اس وقت صدرِ مملکت کا کیا اختیار ہے؟ کیا صدر ایسی تقرری کو ازخود روکنے کا اختیار رکھتے ہیں؟
اس ریفرنس میں کل ملا کر 13 سوالات تھے جن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جسٹس ریاض احمد سینئر ترین جج ہیں۔ اس ریفرنس کی سماعت جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ ریفرنس اور آئینی درخواست کی سماعت ساتھ ساتھ ہوئی اور آخر میں رائے کے ساتھ فیصلہ بھی دے دیا گیا۔ عدالت نے صدارتی ریفرنس کے سوالات پر جوڈیشل کونسل کے فیصلے کو ترجیح دیتے ہوئے قرار دیا کہ جسٹس انور کانسی ہی سینئر ترین جج ہیں اور ان کو ہی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنائے جانے کا فیصلہ درست ہے۔
سینیٹ انتخابات میں ’شو آف ہینڈ‘ سے متعلق ریفرنس
اگرچہ 2012ء سے نومبر 2020ء یعنی 8 برسوں تک سپریم کورٹ جوڈیشل ایکٹوازم میں آگے آگے تھی لیکن اس دوران ریفرنس کوئی نہیں آیا۔ مارچ 2021ء کو سینیٹ انتخابات سے پہلے تحریک انصاف حکومت نے سپریم کورٹ کی مدد لینے کے لیے آئینی و قانونی سوالات پر مبنی ایک ریفرنس بھیجا۔ عدالتی رکارڈ پر اسے ریفرنس نمبر ایک 2020 مانا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید کے ذریعے صدارتی ریفرنس دائر ہوا۔ یہ ریفرنس ایک سیاسی نوعیت کا تھا اور اس میں عدالت سے آرٹیکل 226 کی تشریح مانگی گئی تھی۔
سینیٹ انتخابات کے حوالے سے دائر کیے گئے ریفرنس کو حکومت کی ایک معصوم خواہش سے تعبیر کیا گیا کیونکہ سینیٹرز کا انتخاب خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے اور تحریک انصاف کو اس سے پہلے تجربہ رہا ہے کہ ان کے ممبران اسمبلی ان کے کہنے پر ووٹ دینے کے بجائے ہارس ٹریڈنگ کا حصہ بنتے ہیں۔ اگر یہ انتخابات شو آف ہینڈ کے ذریعے ہوتے تو فون وغیرہ کے ذریعے اپنے ممبران کو قابو میں رکھنے کے کئی طریقے استعمال کیے جاتے لیکن آئین وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ کے سوائے تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے کرنے کی بات کرتا ہے۔
یہ ایک ایسی شق ہے جس کو کوئی عام سادہ سا بندہ بھی سمجھ سکتا ہے لیکن حکومت کو کسی ادارے کی مدد درکار تھی لہٰذا انہوں نے ریفرنس دائر کردیا۔ ریفرنس میں آئین کی شق 226 کی تشریح مانگی گئی تھی۔ اس ریفرنس پر آنے سے پہلے دیکھ لیتے ہیں کہ آئین کی یہ شق کیا کہتی ہے۔
آرٹیکل 226 میں واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ 'دستور کے تابع تمام انتخابات ماسوائے وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ کے، خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے'۔ یہ شق یہاں پر ختم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد شق نمبر 227 شروع ہوتی ہے جو تمام قوانین اسلام، قرآن اور سنت کی روشنی میں بنانے کی بات کرتی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ اس ریفرنس میں بنیادی سوال یہ تھا کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے ساتھ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 124 کے تحت ہوتے ہیں۔ اس ریفرنس کے ساتھ ساتھ حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے اور شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرنے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کردیا۔
اس ریفرنس میں سپریم کورٹ بار، بار کونسل، سندھ ہائیکورٹ بار، سیاسی جماعتیں اور کئی وکلا انفرادی طور پر کود پڑے۔ الیکشن کمیشن نے حکومتی رائے کے برخلاف مؤقف اپنایا کہ سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہوتے ہیں اور ووٹ کا تقدس اسے خفیہ رکھنے میں پناہ ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دلائل ضرور پُراثر تھے مگر وہ سیاسی اور جذباتی زیادہ تھے۔ انہوں نے ہارس ٹریڈنگ، کاروبار، منتخب ممبران کی خرید و فروخت، دکانداری، فلور کراسنگ، لینے دینے اور کرپشن کی کئی باتیں کہہ ڈالیں۔
تمام دلائل مکمل ہونے پر یکم مارچ 2021ء کو سپریم کورٹ نے اس ریفرنس پر اپنی رائے دے دی۔ سپریم کورٹ نے جو رائے دی وہ حکومتی مؤقف کے برعکس تھی۔ اس ریفرنس میں سپریم کورٹ کے 5 میں سے 4 ججوں کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ سینیٹ انتخابات صرف الیکشن ایکٹ 2017 ء ہی نہیں بلکہ آئین کی شق 226 کے تحت ہوتے ہیں اور آئین کی شق خفیہ رائے شماری کے تحت انتخابات کی بات کرتی ہے۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرپٹ پریکٹسز کو روکے اور آئین کے مطابق انتخابات کو شفاف بنائے۔ سپریم کورٹ نے جدید ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے ساتھ یہ بھی رائے دی کہ بیلٹ پیپر ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رکھا جاسکتا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں اپوزیشن اقلیت کے باوجود اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب کروانے میں کامیاب ہوگئی، جس کے نتجے میں وزیرِاعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑگیا۔ اسی ریفرنس میں بینچ میں ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے 4 ججوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’صدر کی طرف سے پوچھا جانے والا سوال قانونی نہیں اس لیے ریفرنس بنتا ہی نہیں اسے واپس کیا جاتا ہے‘۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس
اس وقت بھی حکومت مشکل میں پھنسی ہے اور عدالت اس مشکل سے نکلنے کے لیے پھر سے سپریم کورٹ پہنچ چکی ہے۔ اس بار حکومت آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ آئی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس کی باضابطہ سماعت کر رہا ہے۔
جس آئینی شق کی تشریح مانگی گئی ہے وہ شق بھی بہت حد تک واضح ہے۔ آرٹیکل 63 اے میں واضح کیا گیا ہے کہ ’اگر کسی ایوان میں کسی تنہا سیاسی جماعت پر مشتمل پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہوجائے، کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجائے، یا ایوان میں وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ کے انتخاب، اعتماد یا عدم اعتماد، آئینی یا مالی بل پر پارٹی کے فیصلے کے برعکس ووٹ کرے یا ووٹ کرنے سے اجتناب برتے (شرط ووٹ کاسٹ کرنے یا نہ کرنے کی ہے) تو اس صورت میں پارٹی کا سربراہ تحریری طور اعلان کرسکے گا کہ وہ رکن یا ارکان سیاسی جماعت سے انحراف ہوچکے ہیں۔ پارٹی سربراہ اس اعلان کی ایک نقل پارلیمنٹ کے پریزائڈنگ افسر اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج سکے گا۔ ایک کاپی ممبر کو بھیجے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ پارٹی سربراہ اس ممبر کو اس بارے میں اظہار وجوہ کا موقع فراہم کرے گا تاکہ اس کے خلاف مذکورہ اعلان کیا جائے‘۔
آئین میں اس کے بعد کی کاروائی بھی بتائی گئی ہے لیکن یہاں اس سے سروکار نہیں۔
سپریم کورٹ میں دائر اس تازہ ترین ریفرنس میں 4 مختلف سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ
- آئین کی شق 63 اے کی تشریح کیا ہوگی؟
- کیا سیاسی جماعت سے منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار کیا جاسکتا ہے؟
- منحرف ہونے والے ممبر کی نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟
- ووٹ خریداری کو روکنے کے لیے 63 اے اور 62 اے کی تشریح کرکے ان ارکان کے انتخابات پر تاحیات پابندی لگائی جاسکتی ہے؟
اس ریفرنس کے حوالے سے ہماری بات جب مشہور قانون دان فاروق نائک اور زاہد حامد سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک نااہلی کی مدت کا سوال ہے تو اس پر آئین مکمل خاموش ہے، البتہ پریکٹس یہ رہی ہے کہ فلور کراس کرنے والا ممبر ڈی سیٹ ہوجائے گا۔ وہ نشست پارلیمنٹ کی مدت تک خالی سمجھی جائے گی اور دوبارہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اہل ہوسکتے ہیں۔
یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جہاں نااہلی کی مدت کے بارے میں آئین خود خاموش ہے اس پر سپریم کورٹ کیا رائے دے سکتی ہے؟ اگر سپریم کورٹ مدت کا تعین کرتی ہے تو لازمی ہے اس کو آئین کا حصہ بنانا پڑے گا اور سپریم کورٹ تمام فیصلوں میں یہ کہہ چکی ہے کہ عدالت آئین کی تشریح تو کرسکتی ہے مگر قانون یا آئین میں ترمیم کا حکم عدالت نہیں دے سکتی۔
حکومت ایک طرف ان منحرف ارکان کو تاحیات نااہل کروانا چاہتی ہے لیکن ایک سابق وزیر فیصل واؤڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل زیرِ التوا ہے جس میں فیصل واؤڈا کے وکیل کی التجا یہ ہے کہ تاحیات نااہلی کسی بھی سیاستدان کے لیے سیاسی موت کے برابر ہے۔
اسی سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک آئینی درخواست بھی زیرِ التوا ہے جس میں تاحیات نااہلی کے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ اس ریفرنس میں تاحیات نااہلی کے بارے میں فیصلہ دیتے وقت ان زیرِ التوا درخواستوں کو ضرور دیکھے گی۔
پاکستان میں عدالتی تاریخ کا پہلا ریفرنس
تو چلیں اب پاکستان میں عدالتی تاریخ کے پہلے اور ان دیگر ریفرنس کا ذکر کرتے ہیں جنہیں میں نے کور نہیں کیا۔ ان میں سے اکثر ریفرنسز کا ذکر ریفرنس نمبر ایک 2020ء کی تفصیلی رائے میں موجود ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ عدالتی تاریخ میں پہلا ریفرنس گورنر جنرل غلام محمد خان لائے تھے۔
عدالتی رکارڈ میں اس ریفرنس کو پی ایل ڈی 1955ء ایف سی 435 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ریفرنس میں سوالات کچھ اس طرح تھے کہ
- گورنر جنرل کے حکومت چلانے کے اختیارات اور ذمہ داریاں کیا ہیں؟
- کیا گورنر جنرل کی طرف سے آئینی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا عمل درست تھا؟
- گورنر جنرل نے جس آئینی معاہدے کو تجویز کیا ہے، کیا اس کے تحت حکومت چلانے کا اختیار استعمال کیا جاسکتا ہے؟
اس وقت کی فیڈرل کورٹ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کچھ سوالوں کے جوابات دیے اور کچھ سوالات پر خاموشی اختیار کی گئی۔
گورنر کے اختیارات سے متعلق ریفرنس
پھر دوسرا ریفرنس 1956ء کے آئین کی شق 162 کے تحت اس وقت کے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا نے فیڈرل کورٹ کو بھیجا تھا، جس میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا کسی صوبے کا گورنر آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت کام کرنے والی صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرسکتا ہے؟ عدالتِ عظمیٰ نے اس ریفرنس کو سنا اور پھر جسٹس محمد منیر نے اس پر رائے دی کہ گورنر کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔
بنگلہ دیش کو قبول کرنے یا نہ کرنے سے متعلق اسمبلی کے اختیارات جاننے کے لیے ریفرنس
ذوالفقار بھٹو کے دیے عبوری آئین کی شق 187 کے تحت ایک اسپیشل ریفرنس بھی عدالتِ عظمیٰ کو بھیجا گیا تھا جس میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا سوال اٹھایا گیا تھا۔ اس معاملے کا ذکر الیکشن کمیشن والے ریفرنس میں تفصیل سے کیا گیا۔
اس ریفرنس پر عدالت نے یہ جواب دیا تھا کہ اسمبلی پر بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی قراداد کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں۔ یہ رائے جسٹس حمودالرحمٰن کی سربراہی میں قائم عدالت نے دی تھی۔
صدر غلام اسحٰق خان نے 1989ء میں سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیج کر سوال کیا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فنڈز اسمبلیوں کی عدم موجودگی میں کس طرح خرچ کیے جائیں، جب تک نئی اسمبلیاں منتخب نہیں ہوتیں، اس ریفرنس میں بھی سپریم کورٹ نے یہ رائے دی کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے آنے تک موجودہ فنڈز کے استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہیں۔
ججوں کے تقرر سے متعلق معیار جاننے کے لیے ریفرنس
1996ء میں ججوں کے تقرر کے حوالے سے ایک اور ریفرنس بھی دائر کیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے یہ رائے دی تھی کی الجہاد ٹرسٹ کیس میں جو ججوں کے تقرر کا معیار مقرر کیا گیا ہے، صدرِ پاکستان اس کو نظر میں رکھ کر ججوں کی تقرری کے مجاز ہیں۔
یہ عدالتِ عظمیٰ میں اب تک آئے ریفرنسز کی کُل کہانی ہے۔ جہاں تک حالیہ ریفرنس کا تعلق ہے تو اس پر بینچ بن چکا ہے اس بینچ اور ریفرنس پر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعتراضات اور چیف جسٹس کو لکھا گیا خط بھی سامنے آ چکا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کی اس ریفرنس پر کیا رائے آتی ہے اس کا کچھ وقت انتظار کرنا پڑے گا۔
مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔