تحریک عدم اعتماد سے اصل نقصان آخر کس کا؟
بہت سے حلقوں میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق بہت جوش و خروش پایا جارہا ہے۔ بہت کم یہ آوازیں سننے کو مل رہی ہیں کہ جمہوری سیٹ اپ میں عدم اعتماد کی ضرب لگا کر اس نظام میں چھید کرنا کتنا نقصان دہ ہوسکتا ہے، اور سبھی سیاستدان اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہیں جس پر وہ خود بیٹھے ہیں۔
مولانا کا مسلسل یہ کہنا کہ ’خزاں جائے بہار آئے نہ آئے‘، کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ بیان صاف ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا، اور اقتدار کی کرسی کا حصول جمہوری نظام کی کمزوری کی قیمت پر ہے تو اس ڈیل کو ہمارے سیاستدان گھاٹے کا سودا نہیں سمجھتے۔
بہت سے لوگ تحریک عدم اعتماد کو قانون کے مطابق قرار دے کر اس کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ آئینی اقدام ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس آئینی اقدام کے لیے کتنے غیر آئینی اقدام کیے جارہے ہیں، اور عہدوں، ٹکٹوں اور پیسوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
مزید پڑھیے: ’ہم پریشان تھے کہ اب تک کوئی فون کیوں نہیں آیا‘
تحریک انصاف سے منحرف اراکین صرف اگلے انتخابات کی پارٹی ٹکٹ کی گارنٹی تک محدود نہیں بلکہ اگلے انتخابات کی مہم پر آنے والے کروڑوں روپے کے خرچے کو اسپانسر کرنے کے بھی وعدے وعید لیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ کروڑوں روپے ان اراکین کی جیبوں میں بھی ڈالے جارہے ہیں۔
آج اپوزیشن کی جماعتیں جو پروٹوکول تحریک انصاف کے ناراض اراکین کو دے رہی ہیں اسی پروٹوکول کا انتظار ان کی اپنی پارٹی میں بیٹھے ممبران قومی اسمبلی برسوں سے کر رہے ہیں۔ ابھی 2 دن پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کے ایک پرانے ممبر قومی اسمبلی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی پارٹی کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کی لمبی فہرست سامنے رکھی اور یہ بھی بتایا کہ پچھلے 15 سال سے پارٹی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوتا آرہا ہوں مگر ان 15 سالوں میں بے شمار درخواستوں کے باوجود ایک مرتبہ بھی میاں نواز شریف سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکا ہے۔
اسی طرح بیشتر حکومتی اراکین کو ان ساڑھے 3 سالوں میں وزیرِاعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے لائن میں لگے دیکھا ہے۔ جب کبھی وزیرِاعظم صاحب قومی اسمبلی سیشن میں تشریف لاتے تو ان اراکین کو لائن میں وزیرِاعظم کی نشست کے قریب کھڑے دیکھا اور وزیرِاعظم کو اجلاس کی کاروائی کے دوران ہی 15، 20 سیکنڈز کے لیے ان اراکین کی طرف توجہ کرتے دیکھا ہے۔
جب جمہوری نظام میں ایسے غیر جمہوری رویے ہوں گے تو کسی بھی قسم کی ایسی ضرب کی توقع کرنا جو جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہو، بعید از قیاس نہیں۔
اس ساری صورتحال میں اگر حکومتی اتحادیوں کی سیاست کو دیکھا جائے تو 5 اور 7 اراکین والی جماعتیں اس کوشش میں ہیں کہ براہِ راست پیسہ لینے کی ڈیل کے بجائے پیسہ بنانے والی مشینیں ہی لے لی جائیں، یعنی پنجاب اور سندھ میں ایسے عہدے کے لیے ڈیل کی جائے جس کے ذریعے پیسہ اور اختیار خود چل کر ان کے پاس آئے۔
مزید پڑھیے: تحریک عدم اعتماد: امپائر کے نیوٹرل ہونے یا نہ ہونے پر اتنا اصرار کیوں؟
جس پاور پالیٹیکس کا عروج اس وقت نظر آرہا ہے اس میں ضمیر کی بولیوں کی آواز اتنی اونچی ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز کہیں دب کر ہی رہ گئی ہے۔ کیا آج راجا ریاض، نور عالم خان اور نواب شیر وسیر سمیت کئی رہنما ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں؟ اور ماضی میں جب وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو خیر آباد کہہ کر تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے وہ کس کی آواز تھی؟
اس پوری صورتحال کو ہارس ٹریڈنگ ہی کہیں گے جو برسوں سے اس ملک میں ہوتی چلی آ رہی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے آئین میں ترامیم شامل کرنے والی جماعتیں خود اس ٹریڈنگ میں پیش پیش ہیں۔ اسی وجہ سے کل تک چھانگا مانگا کی سیاست کی بات کی جارہی تھی اور آج سندھ ہاؤس سیاست کی بات کی جارہی ہے۔
اگر چوہدری پرویز الہٰی حکومت یا اپوزیشن کی طرف سے پنجاب کی وزارتِ اعلی کی بولی کا انتظار کر رہے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ اگلے ڈیڑھ سال عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں؟ ایسی کونسی جادو کی چھڑی ان کے پاس ہے کہ جس کو چلایا جائے گا اور 12 کروڑ آبادی کے صوبے میں سب اچھا ہوجائے گا؟
دوسری جانب اگر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) گورنر سندھ کے عہدے کی گارنٹی مانگ رہی ہے تو وہ اس عہدے سے کونسی عوام کی خدمت کرنا چاہ رہے ہیں؟ ماضی میں جب گورنر کا عہدہ ایم کیو ایم کے پاس تھا تو صوبے میں کونسی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں؟
اگر وفاق کی بھی بات کریں تو یہاں بھی وہی فارمولا لاگو ہوگا کہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں نئی آنے والی حکومت عوام کی زندگی میں کیا بہتری لاسکے گی؟ ن لیگ کے سینئر اراکین تو واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اس وقت ملک جہاں پہنچ چکا ہے وہاں سے نکلنے میں بہت وقت چاہیے. اگر ایسا ہی ہے تو 5 سال کا مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت کو ہٹا کر آپ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
ابھی تو اپوزیشن جماعتیں پچھلے ڈیڑھ سال سے اس بات پر متفق نہیں ہو رہیں کہ حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد کا سیاسی نقشہ کیا بنانا ہے، ایسی صورت میں وہ عوام کی بھلائی کے منصوبوں پر کوئی جامع حکمتِ عملی بنانے میں کتنا وقت لگائیں گی؟
دوسری جانب تحریک انصاف بھی ان حالات کی برابر ذمہ دار ہے، میرٹ پر حکومت بنانے کے بجائے مانگے تانگے کے لوگ جہازوں میں بھر بھر کر بنی گالہ لینڈ کروائے جائیں گے تو یہ حال ہونا ہی تھا۔ جب سیاسی اختلاف کو دشمنی میں بدل دیا جائے، سیاسی مخالفین کے خلاف جب 24 گھنٹے چور ڈاکو کے نعرے لگائے جائیں، تحریک انصاف کے نظریے سے اختلاف کرنے والوں کو دشمن سمجھ کر حکومتی ترجمانوں کی فوج کو گالم گلوچ کے لیے ان کے پیچھے لگا دیا جائے تو یہ دن آنا ہی تھا۔
مزید پڑھیے: ووٹنگ سے قبل تحریک عدم اعتماد کو کن مراحل سے گزرنا ہوگا؟
ہماری سیاست کا یہ المیہ ہے کہ جمہوری اقدار کی پاسداری سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ اس وقت یاد آتی ہے جب اقتدار کی کرسی ان سے دُور ہوتی ہے۔ یہی ماضی میں ہوتا آیا ہے یہی اب بھی ہو رہا ہے اور یہی مستقبل میں بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔
اگر یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اقتدار کی ایسی بندر بانٹ شروع ہوگی کہ اگلے ڈیڑھ سال عہدوں کی لڑائی میں ہی گزر جائیں گے اور عوام کی زندگی میں بہتری لانے کے منصوبوں پر سوچنے اور کام کرنے کا وقت ہی نہیں ملے گا۔ فوری طور پر اگر انتخابات پر اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق نہیں ہوتا تو ڈیڑھ سال ’ڈنگ ٹپاو‘ پالیسی پر عمل کرنے کے بعد نئے انتخابات میں نئے وعدوں اور وعیدوں کے ساتھ جایا جائے گا۔
دوسری صورت میں اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے جس کے امکانات اب بہت ہی کم ہیں تو جو ’سیاسی دنگل‘ آنے والے دنوں میں لگے کا اس کا اشارہ وزیرِاعظم عمران خان صاحب دے چکے ہیں۔
ان دونوں صورتوں میں ظاہری شکست تو شاید کسی سیاسی فریق کو ہو مگر اصل شکست جمہوری نظام کی ہی ہوگی۔
وقاص علی چوہدری سال 2008 سے وفاقی دارالحکومت میں بطور صحافی کام کر رہے ہیں اور آج کل ڈان نیوز کے پروگرام ’ان فوکس‘ میں بطور اینکرپرسن ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ٹویٹر پر waqasali012@ پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔