لانگ کووڈ کی اصطلاح کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب بیماری کے بعد بھی 12 ہفتوں سے زائد عرصے تک علامات کا سامنا ہو۔
ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ کووڈ 19 کے 10 سے 25 فیصد مریضوں کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ہر 10 میں سے 7 افراد کو یادداشت اور توجہ مرکوز میں مشکلات جیسے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق میں لانگ کووڈ سے متاثر 181 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی علامات کو 18 ماہ سے زیادہ عرصے تک مانیٹر کیا گیا۔
اکثر افراد کو جب تحقیق میں شامل کیا گیا تو انہیں بیماری کو شکست دیئے کم از کم 6 ماہ ہوچکے تھے اور ان میں سے بھی بہت کم ایسے تھے جن میں ابتدائی بیماری کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔
ان میں سے 78 فیصد نے توجہ کرنے میں مشکلات، 69 فیصد نے ذہنی دھند یا سوچنے میں مشکلات، 68 فیصد نے چیزیں بھولنے اور 60 فیصد نے بات کرنے کے دوران درست الفاظ کے انتخاب کے مسائل کو رپورٹ کیا۔
بعد ازاں ان افراد کے متعدد دماغی صلاحیتیں جانچنے میں مددگار ٹیسٹ کیے گئے تاکہ فیصلہ سازی اور یادداشت کی صلاحیتوں کا جانچا جاسکے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ مسائل ان افراد میں زیادہ نمایاں تھے جن کی طویل المعیاد علامات کی شدت زیادہ تھی۔
دماغی مسائل کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے محققین نے اس سے منسلک دیگر علامات کا جائزہ بھی لیا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ جن افراد کو تھکاوٹ اور دماغی و اعصابی علامات جیسے سر چکرانے اور سردرد کا سامنا ابتدائی بیماری کے دوران ہوا تھا، ان میں طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی تنزلی کی علامات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جن افراد کو بدستور دماغی و اعصابی علامات کا سامنا ہے وہ ذہنی ٹیسٹوں میں زیادہ بدتر اسکور حاصل کرتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ یہ اہم شواہد ہیں کہ لوگوں کو کووڈ کو شکست دینے کے بعد بھی ذہنی مسائل کا سامنا ہے جو ضروری نہیں انزائٹی یا ڈپریشن کا نتیجہ ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یادداشت کے مسائل لوگوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتے ہیں اور ان کے لیے اپنی ملازمت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔