یوکرین جنگ: چین نے روس کی مدد کی تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، امریکا
امریکا نے چین کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر حملے میں روس کی مدد کی تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی خبر کے مطابق ایک مریکی عہدیدار نے متعدد امریکی میڈیا چینلز کو بتایا کہ یوکرین پر حملہ شروع کرنے کے بعد روس نے چین سے فوجی معاونت فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔
تاہم واشنگٹن میں چین کے سفارت خانے نے کہا ہے کہ وہ ایسی درخواست سے باخبر نہیں ہے، اٹلی کے دارالحکومت روم میں چین اور امریکا کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان ملاقات ہونے کے بعد یہ انتباہ سامنے آیا ہے۔ ۔
خیال رہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان شروع ہونے والے بحران کے بعد چین اپنے بیانات میں اپنے اتحادی ماسکو کی حمایت کرتا آرہا ہے لیکن تاحال اس نے روس کو فوجی اور معاشی معاونت فراہم نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں:یوکرینی شہروں کے لیے انسانی راہداریاں کھولیں گے، روس
امریکی عہدیداروں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے مقامی میڈیا نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں روس نے چین سے خاص طور پر فوجی ہتھیاروں اور ڈرونز کی فراہمی کی درخواست کی ہے مگر چین کا اس درخواست پر کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا ہے کہ وہ چین سے براہ راست اور ذاتی طور پر بات کر رہے ہیں کہ اگر اس نے روس کی مدد کی تو بڑے پیمانے پر پابندیوں کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اسے آگے برھنے کی اجازت نہیں دیں گے اور دنیا کے کسی بھی ملک کو ایسی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ روس پر معاشی پابندیوں سے اس کی ’لائف لائن‘ بنیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کو یقین ہے کہ چین اس بات سے باخبر تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن یوکرین پر حملہ کرنے سے پہلے کوئی منصوبہ بندی کر رہے تھے مگر چین نے شاید اس کا مکمل مقصد نہیں سمجھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ جیسے پیوٹن نے یورپی اور دیگر ممالک سے جھوٹ بولا اسی طرح اس نے چین سے بھی جھوٹ بولا ہوگا۔
امریکی عہدیدار جیک سلیوان نے پیر کے دن اٹلی میں اس سلسلہ میں چین کے سینٹرل فارن افیئرز کے سربراہ ینگ جیاچی سے ملاقات کی تھی۔
مزید پڑھیں:امریکا اور برطانیہ نے روس سے تیل کی درآمدات پر پابندی عائد کردی
تاہم غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے امریکی عہدیدار جیک سلیوان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی عہدیدار نے ملاقات کے دوران چین کے عہدیدار کو کہا کہ اگر انہوں نے یوکرین پر حملے کے سلسلے میں روس کی مدد کی تو ان کو نتائج اور تنہائی کا سامنا کرنا ہوگا۔
واشنگٹن میں چین کے سفارت خانہ کے ترجمان لی پینگو نے امریکی میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ روس کی جانب سے کی گئی ایسی درخواست سے بے خبر ہیں اور اس وقت اعلیٰ ترجیح یہ کہ کشیدہ صورتحال کو بڑھنے یا قابو سے باہر ہونے سے روکا جائے۔ خیال رہے کہ چین نے اب تک روسی حملے کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے اور کہا ہے کہ ماسکو کے ’جائز سیکیورٹٰی خدشات‘ کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔
چین کی سرکاری میڈیا اور افسران، جو روسی عہدیداروں کی اس لائن کی تردید کر رہے ہیں کہ یہ ایک ’اسپیشل ملٹری آپریشن‘ ہے نہ کہ قبضہ، وہ بھی روس کی حالیہ دنوں جنگ سے متعلق غلط معلومات کو دہرا رہے ہیں۔
مگر بیجنگ بیک وقت یوکرین کی خودمختاری کے لیے مکمل حمایت کا اظہار کر چکا ہے اور امن کی درخواست کرتے ہوئے اس نے کہا ہے کہ وہ سفارت کاری کی مدد سے جنگ کو ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری جانب متعدد ممالک نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ روس کو حملہ کرنے سے روکنے کے لیے مزید کردار ادا کرے۔
اس جنگ میں یورپی یونین اور امریکا یوکرین کی مدد کرتے ہیں اور چین روس کی مدد کرتا ہے، اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو یہ ایک ایسا خاکہ ہے جو یوکرین میں جنگ کو اور بھی زیادہ نتیجہ خیز بنا دے گا۔
جیسا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ سلامتی مشیر چین کے سینیئر سفارتکار سے ملنے والے ہیں، وائٹ ہاؤس نے اپنے دعووں کو عام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چین پر دباوؑ ڈالنے کی یہ ایک حکمت عملی ہے کہ یا تو وہ روس کی مدد کرنے والی بات کی تصدیق کرے یا اس سے انکار کرے۔
یہ بھی پڑھیں: وہ پاکستانی ہیرو جس نے ڈھائی ہزار بھارتی طلبہ کو یوکرین سے نکالا
اس کا بڑا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ شی جن پنگ کی اپنی موجودہ پوزیشن کے فوائد اور نقصانات کو تولنے کی کوشش کی جائے جیسا کہ گزشتہ ہفتے انہوں نے ماسکو کے ساتھ تعلقات کو ’مظبوط چٹان‘ کہا تھا۔
یاد رہے کہ بیجنگ میں ونٹر اولمپکس شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل ایسا ہوا تھا جب پیوٹن اور شی جن پنگ نے ایک اتحاد کا اعلان کیا جس کی کوئی حد نہیں ہوگی اور فوجی امداد واضح طور پر اس کا حصہ ہوگی۔
لیکن روس کے یوکرین پر حملے کے بعد چین نے برطانیہ ، امریکا اور دیگر ممالک کی یوکرین کی فوج کو ہتھیار فراہم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’آگ میں تیل‘ ڈال رہے ہیں۔
اگر امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ درست ہے اور بیجنگ اس درخواست پر عمل کرتا ہے وہ بھی اس جنگ میں حصہ ڈالے ہوئے ’آگ میں ایندھن‘ ڈال رہا ہے۔