روس نے 80 شہریوں کو پناہ دینے والی مسجد پر بمباری کی، یوکرین
یوکرین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ روس نے ساحلی شہر ماریوپول میں اس مسجد پر بمباری کی جہاں 80 شہریوں نے پناہ لے رکھی تھی۔
غیرملکی خبرایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق یوکرینی وزارت خارجہ نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ ‘ماریوپول میں سلطان سلیمان اور ان کی اہلیہ روزولانا (حریم سلطان) کی مسجد پر روسی حملہ آوروں نے شیلنگ کی، بچوں اور ترک شہریوں سمیت 80 سے زائد افراد وہاں پناہ گزین تھے’۔
بیان میں واضح نہیں کیا گیا کہ یہ واقعہ کب پیش آیا تھا۔
مزید پڑھیں: روس کی یوکرین کے مختلف شہروں پر بمباری، دارالحکومت کیف کی جانب پیش قدمی
استنبول میں ترک وزارت خارجہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے پاس ‘کوئی معلومات نہیں ہیں’۔
انقرہ میں قائم یوکرینی سفارت خانہ نے بتایا کہ ترک وزارت خارجہ کو اس حملے کے بارے میں بتایا گیا تھا تاہم یہ نہیں بتایا کہ کب آگاہ کیا گیا تھا اور اس کا جواب کیا ملا۔
یوکرینی شہر اوڈیسا میں ترک قونصل خانے کی جانب سے پیر کو ایک ٹوئٹ کے ذریعے ترک شہریوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ملک کی طرف انخلا کے پیش نظر مسجد میں پناہ لے لیں۔
گزشتہ روز ترک میں قائم یوکرینی سفارت خانے کی جانب سے صحافیوں کو ماریوپول کے میئر پیٹرو اینڈریوشینکو کی فیس بک پوسٹ جاری کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ ‘اس وقت 86 ترک شہری جو مسجد کے احاطے میں منتقل کیے جارہے ہیں، جن میں 34 بچے ہیں’۔
ماریوپول میں مقیم ترک دوستوں اور رشتہ داروں نے اضطراب کا اظہار کیا۔
ایک دکاندار کی 38 سالہ بہن نے بتایا کہ ‘میرا بھائی شاہین بیتمور گزشتہ 8 برس سے ماریوپول میں مقیم ہیں اور گزشتہ ہفتے سے ہماری ان سے بات نہیں ہوئی’۔
یہ بھی پڑھیں: روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے، امریکا کا انتباہ
کئی افراد سوشل میڈیا میں اپنے پیاروں کے بارے میں سوشل میڈیا میں مضطرب نظر آئے۔
ٹوئٹر میں ایک صارف نے لکھا کہ ‘میں نے اپنی خالہ اور کزن کی آواز 11 دن سے نہیں سنی، ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ آیا وہ زندہ ہیں یا نہیں، رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے اور ہمیں ہی بھی معلوم نہیں کہ کیا کرنا چاہیے’۔
خیال رہے کہ ترکی اس وقت بھی یوکرین کا قریبی اتحادی ہے لیکن ماسکو سے تعلقات منقطع کرنے سے انکار کیا اور یہاں تک کہ دونوں کے درمیان ثالثی کی کوششیں بھی کیں۔
ترکی نے انطالیہ میں روس اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی میزبانی کی۔
‘انسانی بحران’
یوکرینی شہر ماریوپولگھیرے میں ہے اور ایک ہفتے سے زائد عرصے سے بمباری ہو رہی ہے اور روسی فوج نے گھیراؤ کر رکھا ہے۔
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے ایگزیکٹیو نے گزشتہ روز کہا کہ ساحلی شہر کی صورت حال دگرگوں ہے جہاں سے شہری بھاگنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور یہاں پانی اور خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس نے یوکرین کے اہم شہر 'خرسون' کا کنٹرول حاصل کرلیا
یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا نے کہا کہ محاصرے میں موجود شہر ماریوپول میں اس وقت صورت حال بحرانی ہے، گزشتہ 12 دنوں کے دوران ایک ہزار 582 شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔
ماریوپول میں دو روز قبل روسی فورسز نے بچوں کے ایک ہسپتال پر حملہ کیا تھا جہاں ایک بچے سمیت 3 افراد ہلاک ہوئے تھے، جس پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
یوکرین کے نائب وزیراعظم نے کہا تھا کہ اس بحران کے پیش نظر شہریوں کو وہاں سے نقل مکانے کے لیے ایک اور انسانی راہداری کھول کی سہولت دی جارہی ہے تاکہ شہری شمال مشرق میں 200 کلومیٹر دور واقع شہر زیپوریزیزیہا جا سکیں۔
اس سے قبل یوکرین نے دعویٰ کیا تھا کہ روسی فوج نے لوگوں کو نقل مکانی سے روکنے کے لیے باہر جانے کے راستے بند کردیے ہیں۔
تاہم گزشتہ دنوں دارالحکومت کیف سے انخلا کے لیے ایک اور انسانی راہداری کھول دی گئی تھی۔
روس بھاری نقصان کے بعد مزید فوجی بھیج رہا ہے، یوکرینی صدر
دوسری جانب یوکرینی صدر ویلادیمیر زیلنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ روس مزید فورسز یوکرین بھیج رہا ہے کیونکہ اس کو دہائیوں بعد بھاری نقصان کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس کا یوکرین کی سرحد سے کچھ افواج کو واپس بلانے کا اعلان
زیلنسکی نے کہا کہ جرمن چانسلر اولاف شولز اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون سے مالیٹوپول کے میئر کی رہائی کے لیے روس پر زور دینے کے لیے بات ہوئی ہے۔
یوکرین کے دعوے کے مطابق مالیٹوپول کے میئر کو روسی فورسز نے جمعے کو اغوا کرلیا ہے۔
ٹیلی ویژن پر خطاب میں زیلنسکی نے روس پر اس سے قبل جنگ بندی کی کوششوں پر کان نہ دھرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد روس پر زور دیا کہ ساحلی شہر ماریوپول سے انخلا کا عمل جاری رکھنے کے لیے جنگ بندی برقرار رکھیں۔