یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے جن کے مطابق بچوں میں کووڈ 19 کے خلاف ابتدائی مدافعتی ردعمل بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس ہوتا ہے اور تیزی سے انفیکشن کو کلیئر کرتا ہے۔
مگر چونکہ اینٹی باڈیز دوبارہ بیمار ہونے سے بچانے میں اہم ہوتی ہیں تو نتائج سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بچوں کو مستقبل میں بیماری سے کس حد تک تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں 57 بچوں (اوسط عمر 4 سال) اور 51 بالغ افراد (اوسط عمر 37 سال) کو شامل کیا گیا تھا جن میں 10 مئی سے 28 اکتوبر 2020 کے درمیان کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔
ان افراد میں بیماری کی علامات کی شدت معمولی تھی جیسے سردرد اور بخار یا علامات ظاہر ہی نہیں ہوئیں۔
محققین نے لوگوں میں وائرل آر این اے کی سطح کی جانچ پڑتال کے لیے ناک اور حلق سے نمونے حاصل کیے اور وائرس کے خلاف امیونوگلوبلن جی اینٹی باڈیز کا جائزہ لینے کے لیے خون کے نمونے حاصل کیے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ بچوں اور بالغ افراد میں وائرل لوڈ ملتا جلتا ہوتا ہے مگر صرف 37 فیصد بچوں میں اینٹی باڈیز بنیں جبکہ بالغ افراد میں یہ تعداد 76 فیصد تھی۔
اس سے قبل امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ بالغ افراد کے مقابلے میں کووڈ کے خلاف بچوں میں اینٹی باڈی ردعمل مختلف ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں شامل ڈونا فاربر نے کہا کہ آسٹریلیا کے تجزیے سے ہمارے نتائج کی تصدیق ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں میں اینٹی باڈیز کی تعداد کم ہونے کی وجہ ابتدائی مدافعتی ردعمل بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس ہونا ہے۔
آسٹریلیا میں ہونے والی تحقیق میں کچھ افراد کے خون میں مدافعتی خلیات کی تعداد کی جانچ پڑتال بھی کی گئی۔
انہوں نے دریافت کیا کہ بچوں میں اینٹی باڈیز بنانے والے مخصوص اقسام کے خلیات کی سطح بالغ افراد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔