پاکستان

اسلام آباد ہائیکورٹ: پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 پر اٹارنی جنرل سے دلائل طلب

پیکا ایکٹ کا ترمیمی قانون وفاقی کابینہ کو بھیج دیا ہے، ایک کمیشن بنے گا جس کی سفارش کے بغیر کارروائی نہیں چل سکے گی، اٹارنی جنرل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 میں ترامیم کے معاملے پر ریمارکس دیے کہ یہ عدالت چاہتی ہے کہ اس کیس کو مثالی کیس بنایا جائے، اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر سیکشن 20 پر دلائل پیش کریں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ایکٹ قوانین میں ترمیم کے خلاف متفرق درخواستوں پر سماعت کی، حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت نے عدالت کو بتایا کہ تین سال میں 2 لاکھ 39 ہزار شکایات درج کی گئیں، جس میں سیکشن 20 کے تحت درج کی جانے والی 94 ہزار شکایات ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکشن 20 کے تحت کتنے افراد کو گرفتار کیا گیا؟ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ سیکشن 20 کے تحت اب تک کوئی گرفتاری نہیں کی گئی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ محسن بیگ کا کیس عدالت کے سامنے ہے، ایف آئی آر پڑھیں، ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ سیکشن 20 کے ساتھ مقدمے میں دیگر سیکشنز شامل ہو تو گرفتاری ہوتی ہے، ڈائریکٹر ایف آئی آے نے محسن بیگ کے خلاف درج ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔

مزید پڑھیں: پیکا ترمیمی آرڈیننس کےخلاف وکلا، صحافتی برادری اور اپوزیشن سرگرم

عدالت نے استفسار کیا کہ جو کہا گیا اس پر پیکا کی کونسی دفعہ لگتی ہے جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ ملزم نے یوٹیوب پر بھی اسی طرح کے پروگرام کیے۔

عدالت نے کہا کہ اگر یوٹیوب پر پروگرام ہوئے تو وہ آپ کی اس ایف آئی آر سے متعلق کیوں نہیں، کیا پتا اس کتاب میں اچھی چیزیں لکھی ہوں، ایف آئی اے نے کیسے جانچا، آپ کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہ کی جائے کہ آپ نے وزیر اعظم کی توہین کی، بغیر انکوائری کے آپ نے اسی روز کسی شخص کو گرفتار کرلیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ محسن بیگ نے جو کچھ کہا یہ بتائیں کہ اس پر کون سی دفعہ لگتی ہے؟ ایک ایم این اے کا پڑوسی سے درخت کاٹنے کے معاملے پر جھگڑا ہوا تو ایف آئی اے درمیان میں آگیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری درخواست یہ ہے کہ یہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں زیر التوا ہوگا اس لیے اس مسئلے پر ابھی میری رائے نہ مانگی جائے، پیکا ترمیمی آرڈیننس زیادہ بڑا مسئلہ ہے جس پر معاونت کے لیے آج پیش ہوا ہوں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ آپ ایک دفعہ تمام کیسز کا جائزہ تو لیں کہ ایف آئی اے کس طرح اختیارات کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: پیکا آرڈیننس: حکومت کو صحافیوں، سیاسی جماعتوں کے شدید ردعمل کا سامنا

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس مسئلے پر وزیراعظم سے بھی ملا ہوں، جب یہ آرڈیننس آیا تو پتا چلا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، میں کسی سیاسی جماعت کی نہیں وفاق کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ محسن بیگ کا کیس بہت ہی کلاسک کیس ہے، جس دن شکایت درج کی گئی اسی روز گرفتاری عمل میں لائی گئی، یہ سارا کیس اختیارات کے غلط استعمال سے جوڑا ہے، ایف آئی اے نے خود ہی اسی عدالت میں ایس او پیز جمع کرائے، جو ایس او پیز یہاں جمع کرائے گئے وہ سپریم کورٹ میں بھی جمع ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا ہوگا اگر کسی پبلک آفس ہولڈر کے خلاف شکایت درج ہوگئی؟ کیا شکایت درج ہونے پر ایف آئی اے کسی پبلک آفس ہولڈر کو گرفتار کرے گا؟

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس ملک کو کدھر لے کر جانا چاہتے ہیں کہ کوئی تنقید نہ ہو اور اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ یہ قانون کس کی تحفظ کے لیے بنا ہے؟ ایسی ترمیم کرلی کہ کل سی ڈی اے شکایت کرے گی کہ ہم پر کرپشن کا الزام لگایا گیا، مسئلہ صرف ایک ہی ہے کہ پوری دنیا میں فوجداری مقدمات ختم ہوئے ہیں۔

درخواست گزاروں کے سیکشن 20 کو چیلنج کرنے پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر وزیر اعظم سے تفصیلی ملاقات ہوئی، پیکا ترمیمی آرڈیننس کو اگر اس حال میں مسلط کیا جائے تو ڈریکونین قانون ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: پیکا آرڈیننس میں ہتک عزت سے متعلق ترمیم، عدالتی حکم سے متضاد

انہوں نے کہا کہ پہلے میرا خیال تھا کہ پھانسی کی سزا نہیں ہونی چاہیے، سات دن کی بچی کو گولی مارنا، بچوں کا ریپ کرنے جیسے کیسز میں پھانسی ہونی چاہیے، جس طرح کچھ کیسز میں پھانسی ضروری ہے اسی طرح کچھ کیسز میں سزائیں ہونی چاہئیں۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت پیکا ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کے لیے تیار ہے، اس معاملے کو واپس وفاقی کابینہ بھیج کر متعلقہ افراد سے رائے لی جاسکتی ہے، ایک ٹائم فریم رکھیں اور اس میں ہم اس ایکٹ پر کام کریں گے، پی ایف یو جے، پی بی اے و دیگر کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کریں گے، وزیر اعظم کی خصوصی ہدایات پر اس کیس کا دفاع کر رہا ہوں، یہ کیس ہم سب کی غلطی سے ہوا۔

عدالت نے کہا کہ یہ عدالت چاہتی ہے کہ اس کیس کو مثالی کیس بنایا جائے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم رولز کے ذریعے ایک باڈی بنانا چاہتے تھے، میں عدالتی ہدایت پر دوبارہ وزیر اعظم سے ملا ہوں، میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے آرڈیننس سے متعلق علم نہیں تھا، اداروں کو فوجداری قانون کے ذریعے حفاظت کی ضرورت نہیں۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ پیکا ایکٹ ترمیمی آرڈیننس وفاقی کابینہ کو بھیج دیا ہے، ایک کمیشن بنے گا جس کی سفارش کے بغیر کارروائی نہیں چل سکے گی، وزیر اعظم کو بتایا کہ ترمیمی آرڈیننس سے کچھ چیزیں تو واپس ہوں گی، ہم پی ایف یو جے، سی پی این ای اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی آن بورڈ لیں گے، عدالت کا حکم موجود ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے آئندہ سماعت پر پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 پر دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 مارچ تک ملتوی کردی۔

نیپرا نے جنوری کیلئے بجلی 5 روپے 95 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی

رئیل می 9 سیریز کے 2 نئے فونز متعارف

یوکرین میں بچوں کے ہسپتال پر بمباری، روس کی تردید