نقطہ نظر

ملیر ایکسپریس وے: ماحولیاتی تباہی کی جانب لے جانے والی سڑک

ہاؤسنگ سوسائٹیز کے بعد اب ملیر ایکسپریس وے بھی ملیر کے باغات اور کھیتوں کو تباہ کرنے کے در پر ہے۔

دسمبر 2020ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے ملیر ایکسپریس وے کا افتتاح کیا تھا۔ 39 کلومیٹر طویل ملیر ایکسپریس وے شہر کے پوش علاقوں کو کراچی حیدر آباد موٹر وے کے اطراف قائم نئی پوش سوسائٹیوں سے جوڑتا ہے۔

اس افتتاح کے فوراً بعد ملیر کو کئی دہائیوں سے اپنا گھر کہنے والے مقامی افراد نے اس کی تعمیر کے خلاف مظاہرے شروع کردیے۔ ان مظاہروں کی وجہ سڑک کی تعمیر کے لیے ان کے گھروں کو توڑنے کا مجوزہ منصوبہ تھا۔ بعد ازاں کراچی بچاؤ تحریک اور انڈجنس رائٹس الائنس و دیگر کے ساتھ منسلک سماجی کارکن اور ماہرینِ ماحولیات بھی اس جدوجہد کا حصہ بنے۔ انہوں نے سندھ حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ ترقی کے نام پر اشرافیہ کی سہولت کے لیے مقامی آبادی کو بے گھر کررہی ہے اور علاقے کی ماحولیات کو تباہ کررہی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ افتتاح کے فوراً بعد ہی اس منصوبے پر تعمیرات کا کام شروع ہوگیا اور اس ضمن میں نہ ہی مقامی آبادی کو اعتماد میں لیا گیا جو بے گھر ہونے کے خطرے سے دوچار تھے اور نہ ہی سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ایس ای پی اے) میں انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ (ای آئی اے) جمع کروائی۔

جیسا کہ نام سے ہی واضح ہے کہ ای آئی اے کسی بھی تعمیراتی منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ ہوتا ہے جو منصوبے کے آغاز سے قبل کیا جاتا ہے۔

سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014ء کے سیکشن 17 (1) کے مطابق ’کوئی بھی ٹھیکے دار اس وقت تک منصوبے پر کام شروع نہیں کرے گا جب تک وہ ایجنسی کو آئی ای ای یا پھر ای آئی اے جمع نہ کروا دے اور اس ضمن میں ایجنسی کی منظوری حاصل نہ کرلے‘۔

اکتوبر 2021ء میں ملیر ایکسپریس وے تعمیر کرنے والی کمپنیوں نیشنل انجینیئرنگ سروسز پاکستان (نیس پاک) اور ای ایم سی پاکستان نے 800 صفحات پر مشتمل ای آئی اے رپورٹ ایس ای پی اے میں جمع کروا دی۔ ایس ای پی اے نے 9 مارچ کو اس حوالے سے عوامی سماعت طلب کی جس میں شہریوں نے منصوبے کے حوالے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس منصوبے کو مسترد کردیا۔

بے لگام تعمیرات

دنیا بھر میں زمین کے استعمال کے طریقے میں قابلِ ذکر تبدیلی آئی ہے۔ اب شہری منصوبہ ساز ترقیاتی منصوبوں کے اثرات میں موسمی تغیر اور ماحولیات کو ترجیح دے رہے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں تعمیراتی منصوبوں کے دوران ماحولیات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں منصوبوں کو صرف مالی اعتبار سے دیکھا جاتا ہے جبکہ ماحول، حیاتیاتی تنوع، استعمال اراضی (لینڈ یوز) اور فوڈ نیکسس کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

کراچی کی ہی مثال لی جائے تو یہاں مختلف حکومتیں کم از کم 5 ماسٹر پلان ترتیب دے چکی ہیں تاہم ان میں سے کوئی بھی ماسٹر پلان نافذ نہیں ہوا۔ کراچی کی تاریخ ایسے من مانے منصوبوں سے بھری پڑی ہے جن میں شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کو نظر انداز کیا گیا اور نتیجتاً کراچی کے شہریوں، خاص طور پر سے نچلے طبقے کا طرز زندگی متاثر ہوا۔

اس وجہ سے اس بات میں کوئی حیرانی نہیں ہے کہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی کلائمیٹ رسک کنٹری پروفائل رپورٹ فار پاکستان میں کراچی کے لیے شدید ہیٹ ویوز، آلودگی اور سیلاب کے خطرے کا اظہار کیا گیا ہے۔ انٹر گوَرمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آی پی سی سی) کی جاری کردہ کلائمیٹ رپورٹ 2022ء بتاتی ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والا 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ (2.7 ڈگری فیرن ہائیٹ) کا عارضی اضافہ بھی ماحول پر شدید اثرات مرتب کرے گا جن میں سے کچھ ناقابلِ تلافی ہوں گے۔

سال 2015ء میں کراچی کو ایک شدید ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وزارتِ ماحولیاتی تبدیلی کی ٹیکنیکل رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گلوبل وارمنگ اور تیزی سے ہونے والی شہرکاری اربن ہیٹ آئی لینڈ (یو ایچ آئی) کے اثرات کا باعث بنے۔ اس کی وجہ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران شہر کے سرسبز علاقوں میں آنے والی کمی، شہر کا کنکریٹ کے جنگل میں بدلنا، کوئی کھلی جگہ باقی نہ بچنا، اور زیرِ زمین پانی کے زخیروں تک پانی پہنچانے کے لیے کوئی کچی زمین نہ ہونا ہے۔ ہمارے پارکوں میں درخت کمیاب ہوتے جارہے ہیں، سایہ ایک آسائش بنتا جارہا ہے اور ہم ہیں کہ بغیر کسی اعداد و شمار کے شہر میں کنکریٹ کا ڈھیر لگاتے جارہے ہیں جس سے گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہوگا۔

ڈے ژا وو

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نئے منصوبے شروع کرنے سے قبل پرانے منصوبوں کی ناکامی سے سبق سیکھیں۔ مثال کے طور پر لیاری ایکسپریس وے کی ہی مثال دیکھ لیجیے، یہ کراچی کی تاریخ کے بڑے منصوبوں میں سے ایک تھا۔ اس کا مقصد ہیوی ٹریفک کے لیے ایک علیحدہ روٹ کا قیام تھا تاکہ شہر میں ٹریفک کے مسائل کو کم کیا جاسکے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ملیر ایکسپریس وے ہے۔

اگرچہ یہ صرف ہیوی ٹرانسپورٹ کے لیے مخصوص تھا لیکن اپنی تکمیل کے بعد اس نے شہر میں موجود کنکریٹ کے جنگل میں اضافہ ہی کیا۔ اس منصوبے کی وجہ سے 77 ہزار خاندانوں کو بے دخل ہونا پڑا جن میں سے اکثر بے گھر ہوگئے اور ان کے روزگار ختم ہوگئے۔

ان میں سے کچھ خاندانوں نے ملیر کے سمو گوٹھ میں رہائش اختیار کی تھی۔ ملیر ایکسپریس وے ان کے محلوں سے ہی ہوکر گزرے گی اور اب یہ لوگ ترقی کے نام پر ایک بار پھر بے دخلی کے خطرے سے دوچار ہیں۔

تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ 27 ارب 50 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والا یہ منصوبہ واقعی کراچی کے ٹریفک کے مسائل کو حل کرے گا یا پھر یہ صرف کسی ماحولیاتی حادثے کی وجہ بنے گا؟

اس منصوبے کا ایک بڑا حصہ ملیر میں تعمیر ہونا ہے جو کراچی کے چند ایک ماندہ سرسبز علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہیں سے شہر کو تازہ پھل اور سبزیاں فراہم ہوتی ہیں اور یہ شہر کے ’آکسیجن حب‘ کا کام کررہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ملیر کی زرخیز زمین پر کنکریٹ بچھایا جائے گا تو اس میں شہر کے فائدے سے زیادہ اس کا نقصان ہے۔

ای آئی اے رپورٹ میں شامل تضادات

حقیقت یہ ہے کہ ای آئی اے رپورٹ میں بھی کچھ تضادات شامل ہیں جس سے کوئی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک گمراہ کن رپورٹ ہے۔ مثال کے طور پر سیکشن 5.5.1 میں کہا گیا ہے کہ منصوبہ جس جگہ تعمیر ہورہا ہے وہاں ’ماحولیاتی نظام خراب ہے‘۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس منصوبے کی تعمیر سے بہت زیادہ محولیاتی نقصان نہیں ہوگا۔

اس رپورٹ کے مزید کچھ صفحات پلٹیں تو صفحہ 147 سے 150 تک اس علاقے میں موجود جانوروں کی فہرست موجود ہے جو اگرچہ بہت زیادہ جامع تو نہیں ہے لیکن گزشتہ دعوے کی نفی کرتی ہے۔ سلمیٰ بلوچ جیسی ایکولوجسٹ اور وائلڈ لائف فوٹوگرافروں نے صرف پرندوں کی ہی کم از کم 176 اقسام اور لومڑی اور گیدڑ کی موجودگی کو ریکارڈ کیا ہے۔ خود ای آئی اے کی رپورٹ میں بھی لومڑیوں اور گیدڑوں کی موجودگی کا ذکر ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہاں سیکڑوں اقسام کے جاندار موجود ہیں جو اس منصوبے کی زد میں آسکتے ہیں۔

اس رپورٹ سے ایس ای پی اے کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’بغیر ٹریٹ کیے گئے گندے پانی کے ملیر ندی میں جانے سے‘ ساحلی علاقے کو ’ماحولیاتی تناؤ‘ کا سامنا ہے ’جہاں موجود جاندار بہت ہی بُرے حالات میں پائے گئے ہیں‘۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اینڈ نیچرل ریسورسز کی خطرے کا شکار جانداروں کی فہرست میں موجود 113 اقسام اس منصوبے کے راستے میں پائی گئی ہیں۔ حقیقتاً یہ تعداد کہیں زیادہ ہے جسے کئی ماہرینِ ماحولیات اور محققین کی جانب سے ریکارڈ بھی کیا گیا ہے۔

’تعمیراتی کام جاری ہے‘

سماجی کارکنوں اور ماہرینِ ماحولیات کی جانب سے وقتاً فوقتاً خدشات کا اظہار کیے جانے کے باوجود حکومت نے ملیر ایکسپریس وے تعمیر کرنے اور شہر میں موجود کنکریٹ کے جنگل کے باوجود سرسبز اور کھلے علاقوں اور کھیتوں کو مزید محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ممکنہ طور پر منفی اثرات ہوں گے جن میں ہیٹ ویوز، یو ایچ آئی، ماحولیاتی تباہی اور غذائی قلت شامل ہے۔

معاملات کو مزید پیچیدہ بنانے والی چیز یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان اقوامِ متحدہ کے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز اور پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ پر دستخط کرچکا ہے لیکن یہاں موسمیاتی تغیر کے حوالے سے قومی یا صوبائی ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔

پاکستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997ء اور سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014ء کے مطابق تمام بڑے منصوبوں پر عوامی مشاورت ضروری ہے لیکن اکثر یہ منصوبے ای آئی اے یا ریویو رپورٹوں کے بغیر ہی شروع ہوجاتے ہیں اور ان رپورٹس کو عوام سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ ایسا صرف ملیر ایکسپریس وے میں نہیں بلکہ گجر نالے، اورنگی نالے اور محمود آباد نالے کی بحالی میں بھی کیا گیا۔

ترقی، مگر کس کے لیے؟

پاکستان میں منصوبوں کا آغاز ترقی کے نام پر ہوتا ہے لیکن ترقی صرف شہروں میں عمارتیں بنانے کا نام نہیں ہے۔ حقیقی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم شہر اور شہریوں کی ہر ضرورت کے بارے میں سوچیں۔ اس کے باوجود ہمارے اکثر منصوبے مقامی اسٹیک ہولڈرز اور سول سوسائٹی کی شمولیت کے بغیر شروع کردیے جاتے ہیں۔ یہاں جمہوری مشاورت کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور صرف ٹھیکے داروں کے فائدے کا سوچا جاتا ہے جو خود اس نظام کا حصہ ہوتے ہیں۔

کراچی کی فلک بوس عمارتیں ریت اور پتھر کی صورت میں سرسبز و شاداب ملیر کا خون چوس کر بنائی گئی ہیں۔ ریت اور پتھر نکالنے کے باعث زیرِ زمین میٹھے پانی کے ذخائر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے اور اس کی سطح مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ دریں اثنا ہاؤسنگ سوسائٹی کے ڈیولپرز نے بھی ملیر کو تباہ کیا ہے اور اپنے پیچھے ایکڑوں پر پتھر چھوڑ کر گئے ہیں۔ اب ملیر ایکسپریس وے بھی ملیر کے باغات اور کھیتوں کو تباہ کرنے کے در پر ہے۔

اس وقت کراچی کسی سمت کے تعین کے بغیر سفر کررہا ہے۔ اس کی شہری منصوبہ بندی بالکل ناقص ہے اور یہاں کی ماحولیات پر بھی زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ لیکن اس کی شہری منصوبہ بندی اور متعلقہ موسمی اثرات کو حل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس کام کے لیے شراکتی منصوبہ بندی کو اختیار کیا جانا چاہیے جو شہریوں اور شہر کے ماحول کی ضروریات کو پورا کرسکے۔

ہم شہریوں کی آواز اور تمام ترقیاتی منصوبوں کے ماحولیاتی اثرات کو مدنظر رکھ کر ایسا کرسکتے ہیں، ، خاص طور پر جن کا براہِ راست اثر عوام پر پڑتا ہے۔ حکومتی عہدیداروں، شہری منصوبہ سازوں، معماروں، ماہرین ماحولیات اور دیگر ماہرین کے تعاون سے علاقائی اور نچلی سطح کے منصوبوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

چھوٹے سے چھوٹا منصوبہ بھی ٹھوس تحقیق کی بنیاد پر تیار ہونا چاہیے اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور شہریوں سے مشورے کے بعد اس کو حتمی شکل دینی چاہیے۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس قسم کے تعمیری منصوبوں کو بھی علاقائی سطح کے منصوبوں میں شامل کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ شہر کے لیے تباہ کن ہوگا۔


یہ مضمون 08 مارچ 2022ء کو ڈان پرزم میں شائع ہوا۔

محمد توحید

لکھاری شہری منصوبہ ساز اور گیوگرافر ہیں۔ آپ آئی بی اے کراچی میں 'کراچی اربن لیب' سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر/ جی آئی ایس اینالسٹ وابسطہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔