پاکستان

ماحولیاتی اثرات کے جائزے میں شہریوں نے ملیر ایکسپریس وے کی مخالفت کردی

سماعت کے دوران ملیر کے رہائشیوں نے منصوبے کے خلاف نعرے لگائے جس پر سرکاری نمائندے سوالات کے جواب دیے بغیر چلے گئے۔

ملیر ایکسپریس وے مجوزہ منصوبے کے قریب رہنے والے رہائشیوں نے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (سیپا) کی جانب سے ماحولیاتی اثرات کی تشخیصی (ای آئی اے) رپورٹ پر بحث کے لیے منعقدہ عوامی سماعت میں صوبائی حکومت کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دسمبر 2020 میں 27 ارب 50 کروڑ روپے کی لاگت سے کے 39 کلومیٹر طویل اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا، منصوبہ کے پی ٹی انٹرچینج، قیوم آباد سے شروع ہو کر کاٹھور کے قریب کراچی-حیدرآباد موٹروے پر ختم ہوگا۔

اس منصوبے کی ای آئی اے رپورٹ نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) اور ایک نجی کنسلٹنسی فرم ای ایم سی پاکستان نے تیار کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:پیپلز پارٹی کے تمام اراکین پارلیمنٹ نے استعفے پہنچا دیے ہیں، بلاول بھٹو

عوامی سماعت میں موجود ملیر کے رہائشیوں کی جانب سے منصوبے کے خلاف 'ملیر ایکسپریس وے نا منظور'، 'ملیر ایکسپریس وے ناقابل قبول'، 'ملیر کی تباہی نہ منظور'، 'ملیر کی تباہی ناقابل قبول' اور 'ماحول کی تباہی ناقابل قبول' جیسے نعرے لگائے جانے پر سرکاری نمائندے ان کے سوالات کا جواب دیے بغیر چلے گئے۔

ای آئی اے رپورٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شہریوں نے سماعت کو محض ایک مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی صرف دستاویز کے لیے رسمی طور پر منعقد کی گئی تھی۔

انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں شامل حقائق کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سماجی کارکن اور وائلڈ لائف فوٹوگرافر سلمان بلوچ نے دعویٰ کیا کہ سیپا کی پیش کردہ رپورٹ حقیقت سے بہت دور ہے۔

مزید پڑھیں:پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ شروع، 'اسلام آباد پہنچ کر حکومت پر حملہ کریں گے'

سیپا کی جانب سے فراہم کردہ ماحولیاتی اعداد و شمار کے مطابق علاقے میں اتنی تعداد میں کسی قسم کے کوئی جانور، پرندے یا حشرات الارض نہیں ہیں جس سے ماحول کے خدشات پیدا ہوں، کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں 10 سے زیادہ اقسام کے ممالیہ اور 12 اقسام کے رینگنے والے جانور پائے جاتے ہیں جن میں سانپ بھی شامل ہیں۔

رہائشیوں کا کہنا تھا کہ سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے سیکشن 17(1) کے مطابق کوئی بھی تعمیراتی کام اس وقت تک شروع نہیں کی جا سکتا جب تک کہ منصوبہ سازوں کو ای آئی اے رپورٹ نہ مل جائے لیکن اس منصوبے کے 15 کلومیٹر سے زیادہ پر کام شروع ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے 11 کھرب 13 ارب روپے کہاں خرچ ہوں گے؟

انہوں نے الزام لگایا کہ زمین کی سطح کو برابر کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے اور گرین بیلٹ کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

الزامات کا جواب دیتے ہوئے ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو کا کہنا تھا کہ منصوبے سے کوئی گرین بیلٹ متاثر نہیں ہو رہی اور سائٹ پر مشینری ملبہ اور صنعتی فضلہ ہٹانے کے لیے موجود ہے۔

غیر سرکاری تنظیم کلائمیٹ ایکشن پاکستان کے ایک رکن عادل ایوب نے اسفالٹ اور تعمیرات میں کنکریٹ کے استعمال کی وجہ سے ہونے والی ماحولیاتی تباہی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ کنکریٹ ڈھانچے کی وجہ سے شہر میں ہیٹ ویوز آنے کا بہت زیادہ امکان ہے جس سے کراچی کا مجموعی ماحول متاثر ہو سکتا ہے۔

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں 12 فیصد کمی

عہدِ کورونا میں فضائی صنعت کی بپتا

فہیم اشرف کووڈ-19 کا شکار ہو کر آسٹریلیا کیخلاف دوسرے ٹیسٹ سے بھی باہر