سندھ میل: صحرائے تھر کی ریل جسے تقسیم بھی نہ روک سکی
دنیا میں عمومی طور پر ریل گاڑی محض ایک وسیلہ سفر کے طور پر دیکھی جاتی ہے لیکن برِصغیر میں ریل کی آمد کو تہذیبی واقعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
وسیلہ سفر کے ساتھ یہ وسیلہ ظفر بھی ثابت ہوئی اور بقول کسے جب سے ریل چلی ہے لوگ اپنی بیٹیوں کو دُور دُور بیاہنے لگے ہیں۔ ریل نے محض فاصلے ہی نہیں سمیٹے بلکہ یہ لوک داستانوں سے لے کر شعر و ادب کا بھی حصہ بن گئی۔ ریل نے جہاں دُور دیس کے باسیوں کو ایک دوسرے سے قریب کیا وہیں اس کے چلنے سے نئی ثقافت کا آغاز ہوا۔
نہ صرف اردو ادب میں ریل اور اس کی سیٹی ایک استعارہ ہیں بلکہ مختلف علاقوں کے لوک ادب میں بھی ان علامتوں سے رنج اور خوشی جڑی ہوئی ہے۔ یہ خوشی اور غم، ملنے بچھڑنے، ہجر کی تکلیف اور وصل کے کیف آگیں لمحات کا استعارہ ہے۔ یوں ریل کا چلنا ایک ایسا واقعہ تھا جس کا بیان ہنوز جاری و ساری ہے۔ شہر کی وہ سڑک جو ریلوے اسٹیشن کی طرف مڑتی ہے اس کا ماحول ہی باقی شہر سے مختلف ہوتا ہے۔
انگریز سرکار نے صرف بڑے شہروں کو ہی ریل کے ذریعے نہیں جوڑا بلکہ چھوٹے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی آج تک اداس اور ویران کھڑے اسٹیشن یہ بتا رہے ہیں کہ کبھی یہاں بھی ریل چلتی تھی، مسافر چڑھتے اور اترتے تھے۔ اب تو ان عمارتوں میں ویرانی کی رہائش ہے لیکن کسی وقت یہاں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہوگی۔
اب جب راولپنڈی سے چلنے والی ریل کراچی تک محض چند مقامات پر رکتی ہے تو راستے میں چھوٹے اسٹیشن اس قدر تیزی سے گزر جاتے ہیں جیسے خیالات کی یلغار میں کسی اجنبی کا چہرہ گزرتا ہے۔ بس دھندلی سی یاد اور اگلی سوچ اس کو مزید دھندلا دیتی ہے۔ برطانوی راج میں ریلوے محض سرکار نے ہی نہیں چلائی بلکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت برطانوی شہری بھی یہاں سرمایہ کاری کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں پورے برِصغیر میں ریل کا جال بچھ چکا تھا۔
ریلوے کی آمد سے دُور دراز کے وہ علاقے بھی باہم مل گئے جن کا اس سے قبل تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ وہ فاصلہ جو مہینوں میں طے ہوتا تھا دنوں میں طے ہونے لگا۔ یہ احساس اور سرخوشی کہیں ریل کی تعریف میں گیتوں میں ڈھل گئی اور کہیں لوک داستانیں پٹریوں پر سفر کرنے لگیں۔
صحرائے تھر کا ذکر کیا جائے تو ذہن کے پردوں پر تاحدِ نگاہ ریت، پیاس اور افلاس کی تصویریں نمایاں ہونے لگتی ہیں لیکن برطانوی راج کی ’برکت‘ سے اس علاقے میں بھی ریل کی پٹری بچھی۔
جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا! دُور دراز تک پھیلی ریت میں جب ریل کی پٹری نظر آتی ہے تو پہلی بار حیرت ہوتی ہے، لیکن جلد ہی یہ حیرت خوشی میں بدل جاتی ہے۔ اسی سبب سے صحرا کے گیتوں میں آج بھی ریل کی یاد باقی ہے۔ ریل کی سیٹی بھلے خاموش ہوگئی ہو لیکن اس کو یاد کرکے غمزدہ ہونے والے عشاق ابھی باقی ہیں اور اس کی کہانیاں کہنے والے فنکار ہنوز سلامت ہیں۔
ریل تو بند ہوگئی مگر پٹری باقی ہے۔ عمارتوں میں گو اداسی بال کھولے سورہی ہے لیکن یہ ابھی تک اپنے پیروں پر کھڑی ہیں۔ کھوکھرا پار اور موناباؤ کے اسٹیشن سیاست کی نذر ہونے کے باوجود ابھی تک سہانی یادوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ سلامت ہیں جو کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، عمرکوٹ اور چھور سے ریل پر سوار ہوئے اور سرحد کی لکیر کے دوسری طرف جودھ پور، گجرات، بمبئی اور دہلی کے اسٹیشنوں پر جا اترے اور اسی ریل سے ہی واپس اپنی دھرتی پر آئے۔
یہ سب 50 برس اُدھر کا واقعہ ہے، درمیان میں ہجر کی ایک لمبی سیاہ رات پڑتی ہے جس میں پٹری اور اسٹیشن تو ویران اور اداس رہے مگر سرحد کے دونوں طرف آباد شہری ایک دوسرے کی ملاقات کو ترستے رہے حالانکہ کہنے کو محض چند میٹر کا فاصلہ تھا۔ پرویز مشرف دور میں جب پاک-بھارت تعلقات میں بہتری آئی تو کراچی تا جودھ پور ’تھر ایکسپریس‘ دوڑنے لگی اور لوگوں کو یوں لگا کہ یہ واقعہ پہلی بار ہورہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس راستے پر قیامِ پاکستان سے قبل بھی ٹرین چلتی تھی اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1965ء تک چلتی رہی۔ 1965ء کی جنگ کی زد میں آکر یہ بند ہوگئی۔ اس مسافر ٹرین کا نام ’سندھ میل‘ تھا اور یہ کراچی اور بمبئی کے درمیان چلا کرتی تھی۔ کہانیوں میں اس ریل کا تذکرہ ’راجہ کی ریل‘ کے نام سے بھی ملتا ہے کیونکہ اسے چلانے میں جودھ پور کے راجہ کا بھی ہاتھ تھا۔
1843ء سے 1847ء تک سندھ کے گورنر رہنے والے چارلس جیمز نیپئر کا زمانہ سندھ کے لیے گویا مارشل لا کا زمانہ تھا۔ سندھی حکمرانوں کی شکست ہوئی اور انگریزوں کے قدم مزید مضبوط ہوئے۔ اس کی یہاں سے رخصتی کے بعد سندھ کا بمبئی سے الحاق کردیا گیا اور ہنری ایڈورڈ فریئر کی بطور کمشنر تعیناتی ہوئی۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کے نام پر کراچی کا فریئر ہال ہے۔ انہی کی دُور اندیشی کی وجہ سے کراچی کی قسمت کھلی اور یہاں سے ریل کا آغاز ہوا۔
فریئر نے حکومت سے کراچی کو بندرگاہ بنانے اور اسے زمینی راستے سے باقی ہندوستان سے ملانے کی سفارش کی۔ اجازت ملنے کے بعد سروے کا آغاز ہوا اور ابتدائی طور پر کراچی تا کوٹری لائن بچھائی گئی۔ 13 مئی 1861ء وہ یادگار دن تھا جب کراچی شہر اور کوٹری کے درمیان 169 کلومیٹر کا راستہ طے کرتے ہوئے پہلی مسافر ریل گاڑی نے اپنا سفر مکمل کیا۔ اونٹوں پر ہونے والا سفر ریل گاڑی میں بدلنا ایک انقلاب تھا جس سے نہ صرف سفر میں تیزی آئی بلکہ رہزنوں سے بھی جان چھوٹ گئی اور یہ سفر دن رات ہونے لگا۔
اگلے کچھ برس میں کوٹری سے حیدرآباد اور پھر حیدرآباد تا ملتان بھی ریل چلنی شروع ہوگئی۔ یوں کراچی کا زمینی رابطہ پورے ہندوستان سے ہوگیا اور نقل و حمل میں آسانی ہوگئی لیکن یہ رابطہ ابھی نامکمل تھا۔ تھری زبان میں ایک شعر ہے کہ ’ریل گاڑی آوی بمبئی نو مال لاوی‘ یعنی ریل گاڑی بمبئی سے سامان لائی، کراچی تا بمبئی ریل کا چلنا اس گانے کی شانِ نزول ہے۔
کراچی سے ہندوستان کے دیگر علاقوں میں تو ریل کی آمد و رفت شروع ہوگئی اور پنجاب سے بھی ریل ہندوستان کے مرکزی علاقوں تک جارہی تھی، لیکن کراچی سے بمبئی اور دیگر مرکزی علاقوں تک رابطہ اب بھی صرف بحری راستے سے ہی تھا۔ کراچی چیمبر آف کامرس نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا کیونکہ کراچی اور آس پاس کے علاقوں سے گندم اور دیگر اجناس بحری جہاز کے ذریعہ منتقل ہوتی تھیں۔ کراچی چیمبر آف کامرس نے حکومت ہندوستان پر زور دیا کہ کراچی کو بمبئی اور دیگر مرکزی علاقوں سے زمینی طور پر بھی ملا دیا جائے۔ چنانچہ پہلی دفعہ حیدرآباد سے میرپور خاص کی طرف اور پھر میرپور خاص سے آگے کھوکھراپار کی طرف پٹری بچھانے کے عمل کا آغاز ہوا۔
اس میں ایک تکنیکی مسئلہ ریاستی اور برطانوی علاقے کا بھی تھا کیونکہ سندھ اور پنجاب میں نارتھ ویسٹرن ریلوے تھی جبکہ سندھ کی سرحد کے ساتھ راجپوتانہ ریلوے لائن تھی۔ راجپوتانہ ریلوے لائن ریاست جودھ پور کے مہاراجہ امید سنگھ کی عملداری میں تھی چنانچہ باہمی رضامندی سے اس لائن کو ملانے کا بیڑہ اٹھایا گیا۔
حیدرآباد سے شادی پلی تک انگریز سرکار کی طرف سے لائن بچھائی گئی اور جودھ پور سے شادی پلی تک مہاراجہ کی طرف سے پٹری بچھائی گئی۔ اسی باعث اس روٹ پر چلنے والی ریل کو ’راجہ کی ریل‘ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ راجہ امید سنگھ نے اس کے چلنے میں اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ اس ٹرین کا سرکاری نام ’سندھ میل‘ تھا جس کا سفر کراچی سے شروع ہوکر بمبئی میں اختتام پذیر ہوتا تھا۔
مہاراجہ امید سنگھ کے لیے یہ اس لحاظ سے بھی خوش کن امر تھا کہ بارشوں کے نہ ہونے اور قحط کی وجہ سے زرخیز سندھ سے اناج اور پانی کی دستیابی آسان ہوجائے گی۔ وجوہات جو بھی رہی ہوں، اس خطے کے باسیوں کے لیے ریل کا چلنا ایک ایسی نعمت تھی کہ جس کا تصور بھی محال تھا۔ سفر آسان ہوگیا، فاصلے کم ہوگئے، خوشی اور شادمانی گیتوں اور لوک کہانیوں میں ڈھل گئی، اب بھلا مسافر کو اور کیا چاہیے؟
برطانوی حکومت نے حیدرآباد سے شادی پلی تک 106 کلومیٹر طویل پٹری بچھائی۔ ریاست جودھ پور نے بارمیر تا شادی پلی 216 کلومیٹر طویل پٹری بچھائی اور یوں کراچی کا زمینی رابطہ بمبئی تک ہوگیا کیونکہ جودھ پور سے آگے بمبئی تک پہلے ہی پٹری موجود تھی۔
راجا کی ریل یا سندھ میل میرپورخاص سے صبح 8 بجے روانہ ہوتی تھی اور شادی پلی، پتھورو اور چھور ریلوے اسٹیشن سے گزر کر دوپہر کو ایک بجے موناباؤ پہنچتی تھی۔ اس کی اوسط رفتار 50 کلومیٹر کے قریب تھی۔ یہ ریل کراچی تا کھوکھراپار تقریباً 30 اسٹیشنوں پر رکتی اور پھر کوک کوک چھک چھک کرتی اگلی منزل کو سدھار جاتی۔
8 اگست 1992ء کو حیدرآباد سے پہلی ٹرین شادی پلی کے لیے روانہ ہوئی جبکہ جودھ پور تا شادی پلی والا حصہ 1900ء میں مکمل ہوا تھا۔ بعدازاں اس لائن کے ساتھ بدین، ڈِگری، جھڈو، نوکوٹ، نفیس نگر، نبی سر، کنری، پتھورو وغیرہ کو بھی جوڑ دیا گیا۔ اسی طرح نواب شاہ، سانگھڑ اور روہڑی سے بھی اس کا رابطہ قائم ہوگیا۔
اس ریل کے پیچھے حکمران اور مقتدر طبقے کے جو بھی مقاصد رہے ہوں، یہ امر تو طے ہے کہ اس کا سب سے زیادہ اور براہِ راست فائدہ اس خطے کے عوام کو ہوا۔ صحرا کی ریت میں بچھی پٹری اور اس پر دھویں کے بادل اڑاتی ریل نے یہاں کے باسیوں کو گویا جدید دنیا میں لاکھڑا کیا اور پیدل چلنے والوں کو سستی سواری دستیاب ہوئی۔ کراچی تا بمبئی زمینی رابطہ قائم ہونا کسی انقلاب سے کم نہیں تھا۔
اس ٹرین کو راجہ کی ریل پکارا جائے یا سندھ میل، اس کی افادیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ تقسیمِ ہند کے وقت بھی یہ ٹرین دونوں طرف کے صحرانوردوں کو ملاتی رہی۔
جنگ کا بُرا ہو جس کی وجہ سے یہ ٹرین معطل ہوگئی، 1965ء کی جنگ میں اس کو شدید نقصان پہنچا اور ٹرین چلنی بند ہوگئی۔ بعدازاں یہ وقتاً فوقتاً چلتی رہی۔ پھر پرویز مشرف دور میں اس لائن کو ازسر نو بچھایا گیا اور تھر ایکسپریس کے نام سے کراچی سے ٹرین بھارتی سرحد تک چلنی شروع ہوئی لیکن یہ چلن بھی گویا عارضی تھا۔
اب صرف میرپور خاص تا کھوکھراپار روزانہ ایک ٹرین چلتی ہے جو صبح کھوکھراپار سے میرپور خاص آتی ہے اور شام کو پھر کھوکھراپار کے لیے روانہ ہوتی ہے۔ اس کا نام صحرائے تھر کی لوک داستان کے مرکزی کردار ماروی کے نام پر ماروی ایکسپریس رکھا گیا ہے۔ اس علاقے کے باشندوں کے لیے یہ بھی ایک غنیمت ہے۔ ویران اور اجاڑ اسٹیشنوں میں دن میں ایک بار تو ہلچل ہوتی ہے اور بزرگ اسے دیکھ کر عمر رفتہ کی یادوں کو آواز دے سکتے ہیں۔
تصاویر: کھوکھرا پار اور میرپور خاص کے درمیان چلنے والی ٹرین (2004ء)— نائیل ایڈورڈز/irfca.org
راشد احمد تھر سے تعلق رکھتے ہیں اور اردو ادب کے طالب علم ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: faroghayurdu@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔