افغانستان: طالبان نے عالمی یوم نسواں پر خون کے عطیات کی مہم روک دی
عالمی یوم نسواں پر سماجی کارکنان نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان نے خواتین کارکنان کی جانب سے خون کے عطیات کی مہم روک دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں عام طور پر خواتین کے دن کو خاموشی کے ساتھ منایا جاتا ہے، سماجی کارکنان حکومت کی جانب سے گرفتاری یا قید کیے جانے کے خطرے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
کابل کے ایک ہسپتال کے باہر خواتین کے حقوق کی ایک تحریک کی سربراہ مونیسا مُبارز نے 7 دیگر کارکنان کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس گروپ کا ارادہ احتجاج کرنے کا تھا، تاہم خواتین کے حقوق کے لیے مظاہرہ کرنے والوں پر طالبان کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے انہوں نے خون کا عطیہ دینے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان، خواتین کو عمومی زندگی سے محروم کر رہے ہیں، اقوام متحدہ
انہوں نے کہا کہ اس مہم کو کابل کے جمہوریات ہسپتال میں طالبان کے مقرر کردہ ہسپتال ڈائریکٹر نے اس وقت ناکام بنا دیا جب ہسپتال کے عملے کو معلوم ہوا کہ اس کا مقصد خواتین کا عالمی دن منانا ہے۔
مونیسا مُبارز نے کہا کہ انہوں نے اس مہم کو ایک احتجاج کے طور پر دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ پہلے سے رابطہ کیا جاچکا تھا لیکن جب ہم اپنی مہم شروع کرنے کے لیے یہاں آئے تو ہسپتال کے سربراہ (جو طالبان میں سے ہی ایک ہیں) نے ہمیں اجازت نہیں دی۔
مزید پڑھیں: افغانستان: خواتین امور کی معطل وزارت کی عمارت کے سامنے عملے کا احتجاج
ان کا کہنا تھا کہ شہر کے مرکزی بلڈ بینک کو قائل کرنے کی کوششیں بھی بے سود تھیں، انہوں نے بھی ہمیں اجازت نہیں دی اس لیے ہماری مہم روک دی گئی۔
گزشتہ سال 15 اگست کو اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان نے ملک کی خواتین کو 2 دہائیوں کو دوران حاصل کردہ حقوق کو واپس لے لیا ہے، انہیں سرکاری ملازمت اور تنہا سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے اور اسلام کی سخت تشریح کے مطابق لباس پہننے کا حکم دیا گیا۔
ویمنز یونیٹی اینڈ سالیڈیرٹی گروپ کی ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ طالبان نے ہم سے آسمان کے ساتھ ساتھ زمین بھی چھین لی۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کی جبری شادی پر پابندی عائد کردی
طالبان نے 1996 سے 2001 تک اپنے پہلے دور اقتدار کے مقابلے میں اس بار اسلام پسند حکمرانی کی معتدل طرز کا وعدہ کیا ہے، لیکن اس کے باوجود قومی سطح پر نہیں تو علاقائی حکام کی سطح پر پابندیاں ضرور لگائی جارہی ہیں۔
کچھ افغان خواتین نے ابتدا میں طالبان کی پابندیوں کے خلاف سختی سے مزاحمت کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے احتجاج اور مظاہرے کیے جہاں انہوں نے تعلیم اور روزگار کے حق کا مطالبہ کیا۔
تاہم طالبان نے جلد ہی مزاحمت کی قیادت کرنے والی کئی خواتین کو گرفتار کر لیا، انہیں رابطے سے محروم کرکے قید تنہائی میں رکھا اور انہیں حراست میں لینے کی تردید کی۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں دو دہائیوں بعد دوبارہ شوبز میں خواتین کو دکھانے پر پابندی
ان خواتین کی رہائی کے بعد سے بیشتر سماجی کارکنان خاموش ہیں۔
تاہم طالبان کی جانب سے کم از کم خواتین کے عالمی دن کو تسلیم ضرور کیا گیا۔
وزارت خارجہ نے خواتین کے عالمی دن کو خوشگوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کو عظیم مذہبِ اسلام اور ہماری مقبول روایات کی روشنی میں ایک باعزت اور مفید زندگی فراہم کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کے کھیلوں پر پابندی لگا دی
اجازت کے بغیر احتجاج پر پابندی ہے لیکن طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹ کیا کہ یہ دن ہماری افغان خواتین کے لیے اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔
کابل کے مضافات میں اقوام متحدہ کے وسیع و عریض کمپاؤنڈ کی چار دیواری میں اقوام متحدہ اور افغان خواتین کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقد ہونے والی ایک نمائش میں مقامی خواتین کی ملکیت والے کاروباروں کے تیار کردہ سامان کی نمائش کی گئی۔