لائف اسٹائل

خواتین حجاب پہننا چاہتی ہیں یا نہیں یہ ان کا اپنا انتخاب ہے، ملالہ یوسف زئی

اگر کوئی مجھے سر ڈھانپنے پر مجبور کرے تو میں احتجاج کروں گی، اگر کوئی مجھے اسکارف اتارنے پر مجبور کرے تو بھی احتجاج کروں گی، ملالہ

دنیا کا اہم ترین ایوارڈ ’نوبیل انعام‘ حاصل کرنے والی ملالہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ خواتین حجاب پہننا چاہتی ہیں یا برقع اتارنا چاہتی ہیں، یہ ان کا اپنا انتخاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ دونوں میں سے کسی کی بھی حمایت نہیں کرتی بس یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اس میں کسی کا انتخاب ک احق خواتین کو ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی اہم معاملات ہیں جن کے لیے لوگوں کو لڑنا چاہیے جیسے خواتین کی انفرادی آزادی، ان کی تعلیم اور خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام۔

یہ بات ملالہ یوسف زئی نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں کی جس میں خواتین کے حقوق پر لکھے جانے والے اپنے ایک مضمون کا لنک بھی دیا۔

اپنی پوسٹ میں انہوں نے کہا 'کئی برس قبل میں نے طالبان کے خلاف آواز بلند کی تھی جو خواتین کو برقع پہننے پر مجبور کررہے تھے، اور گزشتہ ماہ میں نے بھارتی حکام کے خلاف بات کی جو لڑکیوں کو اسکولوں میں حجاب اتارنے پر مجبور کررہے ہیں۔ یہ تضاد نہیں، دونوں معاملات میں خواتین کو ہدف بنایا جارہا ہے، اگر کوئی مجھے میرا سر ڈھانپنے پر مجبور کرے تو میں احتجاج کروں گی، اگر کوئی مجھے میرا اسکارف اتارنے پر مجبور کرے تو بھی میں احتجاج کروں گی'۔

انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اس بحث سے باہر نکل کر ان معاملات پر توجہ دیں جن کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا 'کوئی خاتون برقع کا اتنخاب کرے یا بکنی کا، اسے یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ ہمارے پاس آکر خواتین کی انفرادی آزادی اور خودمختاری پر بات کریں، تشدد کی روک تھام، تعلیم اور جبر کو روکنے کی بات کریں، ہمارے پاس ملبوسات پر اعتراضات لے کر نہ آئیں'۔

انہوں نے اپنے ایک مضمون کا لنک دیتے ہوئے کہا 'ہر خاتون کے حق کے دفاع کے لیے میرا مضمون پڑھیں تاکہ تعین کرسکیں کہ پوڈیم پر انہیں کیا پہننا چاہیے'۔

اس مضمون میں ملالہ یوسف زئی نے اپنے چند تجربات کا ذکر کیا ہے جیسے کالج میں ان کے ملبوسات پر لوگوں نے کیسے ردعمل کا اظہار کیا۔

ملالہ یوسف زئی نے کہا 'آکسفورڈ میں کالج میں میری ایک تصویر دنیا بھر میں شہ سرخیوں میں آئی، جس میں، میں نے جیکٹ، جینز اور اسکارف پہنا ہوا تھا'۔

ان کا کہنا تھا 'کچھ افراد روایتی شلوار قمیض کی جگہ اس لباس کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے، انہوں نے مجھ پر بہت زیادہ مغربی ہونے کی تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ میں نے اسلام اور پاکستان کو چھوڑ دیا ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ جینز کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک میں نے اسکارف پہنا ہوا ہے، دیگر نے کہا کہ میرا اسکارف جبر کی علامت ہے اور مجھے اسے اتار دینا چاہیے'۔

انہوں نے مزید کہا 'میں نے کچھ بھی نہیں کہا، مجھے لگا کہ مجھے اپنا دفاع کرنے یا دوسروں کی توقعات پر پورا اترنے کی ضرورت نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے اسکارف سے محبت ہے۔ میں جب اس کو پہنتی ہوں تو میں خود کو اپنی ثقافت کے قریب محسوس کرتی ہوں۔ مجھے توقع ہے کہ میرے گاؤں کی لڑکیاں ان کی طرح نظر آنے والی اور لباس پہننے والی اپنی تعلیم مکمل کرسکتی ہے، کیرئیر شروع اور اپنے مستقبل کا انتخاب کرسکتی ہے'۔

سونے سے قبل کچھ کھانا نقصان دہ ہوتا ہے یا فائدہ مند؟

وہ بہترین ہارر فلمیں جو آپ نیٹ فلیکس پر دیکھ سکتے ہیں

رمشا خان کے ساتھ کام کرنے کے بعد پڑوسی شادی کی سلامی دینے آئے، عفان وحید