کہانی پاکستان میں کرکٹ واپسی کی
4 مارچ 2022ء پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ایک یادگار دن کہلائے گا کیونکہ اسی روز پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی مکمل واپسی پر مہر ثبت ہو رہی ہے۔
راولپنڈی میں پہلے پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ کے ساتھ وہ تمام رکاوٹیں دُور ہوجائیں گی جو پاکستان کی بین الاقوامی کرکٹ کی میزبانی کی راہ میں حائل تھیں اور اس سے رواں سال انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے دوروں کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی۔
13 سال قبل سانحہ لاہور سے اب تک کا سفر آسان نہیں تھا۔ 3 مارچ 2009ء کے اس سیاہ دن کے بعد پاکستان دنیائے کرکٹ سے ’جلا وطن‘ ہوگیا اور بالآخر کئی سالوں کی کوششوں کے بعد آج یہ وقت آیا ہے کہ آسٹریلیا کی بہترین ٹیم ایک مکمل سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان میں موجود ہے۔
اس دوران کئی نشیب و فراز آئے، کئی سنگ ہائے میل عبور کیے گئے، تب جاکر یہ منزل آئی ہے۔ لہٰذا یہ وقت ہے ان مواقع کو یاد کرنے کا، ان چھوٹی چھوٹی کوششوں کا، ان دوستوں کا جنہوں نے ان مشکل مراحل میں پاکستان کا ساتھ دیا اور ان افراد کا بھی کہ جنہوں نے بے لوث ہوکر اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔
کہنے کو تو یہ 13 سال کا عرصہ ہے لیکن اصل میں 21 سال کا کٹھن سفر تھا، جس کا آغاز اسی تاریخ سے ہوتا ہے، جس نے دنیا کو بدل دیا تھا، یعنی 11 ستمبر 2001ء سے۔
11 ستمبر 2001ء
نائن الیون نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور جدید تاریخ کو مکمل طور پر 2 حصوں میں بانٹ دیا، یعنی نائن الیون سے پہلے کی دنیا اور نائن الیون کے بعد کی دنیا۔ لیکن پاکستان کے لیے تو یہ واقعہ اس لیے بھی تباہ کُن ثابت ہوا کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کے پڑوس میں ایسی جنگ شروع ہوئی جس کے اثرات جلد ہی پاکستان پر بھی پڑنے لگے اور یہاں دہشتگردی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے سب سے پہلے بین الاقوامی کرکٹ کو متاثر کیا۔
2002ء میں آسٹریلیا نے پاکستان میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے سے انکار کردیا، جیسا کہ توقع ہوتی ہے کہ کسی بھی قسم کی ایسی صورتحال میں سب سے پہلے آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ ہی انکار کریں گے۔ بعد ازاں اس سیریز کا پہلا مقابلہ کولمبو میں اور باقی ماندہ دونوں ٹیسٹ شارجہ میں کھیلے گئے۔
8 مئی 2002ء
لیکن پاکستان میں پہلا سنجیدہ نوعیت کا واقعہ مئی 2002ء میں پیش آیا جب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔ ٹیم ہوٹل کے باہر فرانسیسی انجینیئرز کی ایک بس کے قریب کار بم دھماکا ہوا جس میں 11 فرانسیسی اور 2 پاکستانی مارے گئے۔ اس حادثے کے بعد نیوزی لینڈ کا دورہ فوری طور پر منسوخ ہوگیا۔
خوشیوں کے چند سال
ویسے اس واقعے سے پاکستان کرکٹ کو نقصان تو ضرور پہنچا لیکن وہ عارضی تھا۔ اگلے ہی سال یعنی 2003ء میں بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ بلکہ خود نیوزی لینڈ نے بھی پاکستان کے دورے کیے۔ پھر 2004ء میں بھارت نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا اور زمبابوے اور سری لنکا نے بھی سرزمین پاک پر قدم رکھے۔
2005ء بلاشبہ ایک یادگار سال تھا جس میں انگلینڈ نے پاکستان کے میدانوں پر ایک ناقابلِ فراموش ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز کھیلی۔
2006ء میں پاکستان نے بھارت اور ویسٹ انڈیز کی اور 2007ء میں جنوبی افریقہ کی میزبانی کی۔
پے در پے سانحات
یہاں ایک سال کے عرصے میں 3 بڑے واقعات پیش آئے، سب سے پہلے سانحہ لال مسجد کہ جس کے بعد ملک میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی اور پھر 2007ء کے اواخر میں بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی۔
اس کے باوجود سال 2008ء حیران کن طور پر پاکستان کرکٹ کے لیے ایک نمایاں سال تھا۔ زمبابوے اور بنگلہ دیش کی میزبانی کے بعد پاکستان نے ایشیا کپ 2008ء کی میزبانی تک کی کہ جس میں بھارت نے بھی شرکت کی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ویسے اس سے اندازہ کرلیں کہ اتنے بڑے واقعات پیش آنے کے باوجود بھی ملک میں بین الاقوامی کرکٹ بند نہیں ہوئی۔ پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ ہر ٹیم نے پاکستان آنے سے انکار کردیا؟ ایک طرف تو ملک میں بڑھتے ہوئے دہشتگردی کے واقعات اور خودکش حملے تھے تو دوسری جانب نومبر 2008ء میں ممبئی دہشتگردی کا واقعہ، جس کا الزام بھارت نے ہمیشہ کی طرح پاکستان پر لگایا اور پھر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ کے درپے ہوگیا۔
پھر آیا 3 مارچ 2009ء کا وہ منحوس دن، جب لاہور میں قذافی اسٹیڈیم کے قریب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشتگردوں نے حملہ کردیا۔ واقعے میں کئی سری لنکن کھلاڑی اور امپائر زخمی ہوئے جبکہ ان کی حفاظت پر مامور 6 اہلکاروں نے اپنی جانیں دیں۔
اس واقعے کے بعد تو سالہا سال تک پاکستان میں کرکٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان ورلڈ کپ 2011ء کے میزبانوں میں شامل تھا لیکن یہ اعزاز بھی اس سے چھن گیا۔
اگلے کئی سال مختلف ملکوں کے ساتھ مذاکرات اور اپنی 'ہوم سیریز' متحدہ عرب امارات میں کھیلنے میں گزر گئے۔ 2015ء تک کوئی پاکستان کا رخ کرنے کو تیار نہیں تھا یہاں تک کہ زمبابوے کرکٹ ٹیم محدود اوورز کی ایک مختصر سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئی۔
لیکن جس سال نے پاکستان کرکٹ کے لیے انقلاب برپا کیا، وہ 2017ء تھا۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے پہلے سیزن کے مکمل طور پر متحدہ عرب امارات میں انعقاد کے بعد یہی وہ سال تھا جس میں پاکستان نے فائنل لاہور میں کروانے کا فیصلہ کیا۔
لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے اس فائنل میں کئی غیر ملکی کھلاڑی شریک ہوئے اور پھر اسی سال ستمبر میں ورلڈ الیون نے بھی پاکستان کا دورہ کیا۔ اس ٹیم میں تمیم اقبال، ہاشم آملا، پال کولنگ وڈ، بین کٹنگ، فاف دوپلیسی، جارج بیلی، ڈیوڈ ملر، تھیسارا پیریرا، ڈیرن سیمی، مورنے مورکل اور سیموئل بدری جیسے اسٹار کھلاڑی شامل تھے۔
نیا سال، نئے قدم
پاکستان نے 2018ء میں پی ایس ایل فائنل کے علاوہ پلے آف مرحلے کے آخری 2 ناک آؤٹ میچ بھی ملک ہی میں کروانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں انگلینڈ کے لیام ڈاسن، کرس جارڈن، ٹائمل ملز، روی بوپارا، جو ڈینلی، جنوبی افریقہ کے کولن انگرام، رائلی روسو اور جے پی ڈومنی، ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی، نیوزی لینڈ کے لیوک رونکی، بنگلہ دیش سے تمیم اقبال اور محمود اللہ اور سری لنکا کے تھیسارا پیریرا پاکستان کھیلنے کے لیے آئے۔