سوئیڈن کی کالمرز یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، اٹلی پیڈوا یونیورسٹی، یوڈائن یونیورسٹی اور آسٹریا کی ویانا یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں ایک نئے ماڈل کو تیار کرکے جائزہ لیا گیا کہ فیس ماسک یا اس کے بغیر وائرسز جیسے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ کیا ہوتا ہے۔
نتائج سے ثابت ہوا کہ 2 میٹر کا 'محفوظ' فاصلہ ہر وقت تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ اس کا انحصار ماحولیاتی عناصر پوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فیس ماسک کووڈ سے تحفظ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
نظام تنفس کے امراض کے پھیلاؤ کے حوالے سے موجودہ سفارشات اور معلومات اس سے قبل 1934 میں امریکی سائنسدان ولیم فرتھ ویلز کے تیار کردہ ڈایاگرام پر مبنی ہے۔
مگر ان کا ماڈل بہت سادہ اور پھیلاؤ کی حقیقی پیچیدگی ظاہر نہیں کرتا۔
اس تحقیق میں سائنسدانوں نے زیادہ جدید ماڈل تیار کیا جس سے مختلف عناصر جیسے فاصلہ درجہ حرارت، نمی کی سطح، وائرل لوڈ اور دیگر کو مدنظر رکھتے ہوئے کورونا کے پھیلنے کے براہ راست خطرے کا زیادہ بہتر تخمینہ لگایا جاسکتا ہے۔
ماڈل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فیس ماسک کے ساتھ یا اس کے بغیر خطرے کی شرح میں کیا تبدیلی آتی ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ اگر ایک فرد فیس ماسک کے بغیر ہو تو وہ بات کرتے ہوئے ایک میٹر دور بھی وائرل ذرات کو پھیلا سکتا ہے جبکہ کھانسی کی صورت میں یہ ذرات 3 میٹر دور پھیل سکتے ہیں، چھینکنے پر یہ فاصلہ 7 میٹر تک بڑھ جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں فیس ماسک پہننے پر بیماری کے پھیلنے کا خطرہ نمایاں حد تک گھٹ جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اگر آپ نے ایک سرجیکل ماسک پہنا ہوا ہو تو آپ متاثرہ فرد سے ایک میٹر کی دوری پر بھی ہو تو بھی بیماری کا خطرہ نمایاں حد تک گھٹ جاتا ہے۔
تحقیق کے دوران اس نئے ماڈل کو ذرات۵ کے اخراج کے متعدد تجربات پر بھی آزمایا گیا جس سے انہیں مختلف عناصر اور خطرے کے بارے میں پیشگوئی میں مدد ملی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرسز جیسے کورونا وائرس کسی متاثرہ فرد سے دیگر تک بات کرنے، کھانسنے یا چھینکنے کے دوران خارج ہونے والے وائرل ذرات سے پھیلتا ہے۔
منہ سے باہر نکلنے کے بعد یہ ذرات یا تو بخارات بن کر اڑ جاتے ہیں، ہوا میں ٹھہر جاتے ہیں یا تیرنے لگتے ہیں۔
بڑے اور بھاری ذرات تیزی سے سطح پر گر جاتے ہیں جبکہ چھوٹے ذرات ہوا میں موجود رہتے ہیں۔