یوکرین پر حملے کے بعد روس پر پابندیاں کتنی اہمیت کی حامل؟
1991ء میں یوکرین وہ پہلا ملک تھا جس نے سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کا اعلان کیا۔ یوکرین کی جانب سے آزادی کے اعلان نے سوویت یونین کو بڑا دھچکا دیا کیونکہ یوکرین اور موجودہ روس صدیوں سے ایک خطے کے طور پر دیکھے جاتے رہے ہیں۔
سویت یونین نے یوکرین میں بڑے پیمانے پر صنعتیں بھی قائم کی تھی جس میں طیارہ سازی کی صنعت اور ہیوی انجینیئرنگ کے ساتھ ساتھ بلیک سی نیوی فلیٹ بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار بھی یوکرین میں موجود تھے۔ یہاں بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار بھی موجود تھے جو یوکرین کی جانب سے آزادی کا اعلان کیے جانے کے بعد یوکرین کے کنٹرول میں آگئے تھے۔
آزادی کے باوجود بھی یوکرین کا معاشی انحصار روس پر ہی رہا جس کی وجہ سے سب سے پہلے یوکرین نے بلیک سی فلیٹ کو روس کے حوالے کرتے ہوئے 25 سال تک بحری اڈہ روس کے حوالے کیا اور بعد ازاں مغربی ملکوں اور روس کی ایما پر اپنے پاس موجود بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار تلف کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔
مغربی ممالک خصوصاً نیٹو اتحاد نے یوکرین کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ یوکرین کا تحفظ کریں گے اور یوکرین کو یورپی یونین کے علاوہ نیٹو کی رکنیت بھی دی جائے گی لیکن مغربی اتحاد نے اپنے وعدے پورے نہ کیے اور یوکرین روس کے مقابلے میں اپنے دفاع کی صلاحیت سے بھی محروم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی قسم کا معاشی فائدہ بھی نہ اٹھا سکا۔
مزید پڑھیے: یوکرین بحران روس اور یورپ کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟
روس اور یوکرین میں باہمی طور پر کتنی عداوت پائی جاتی ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب 2014ء میں کراچی میں منعقد ہونے والی دفاعی نمائش آئیڈیاز میں پہلی مرتبہ روسی وفد نے شرکت کی۔ اس نمائش کی کوریج کے دوران یوکرین کے اسٹال پر جانا ہوا۔ یوکرین کے اسٹال پر موجود وفد نمائش میں روس کی شرکت پر نالاں نظر آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین پاکستان کو بہت سے شعبہ جات میں اسٹریٹیجک اور ہیوی انجینیئرنگ آلات فراہم کررہا ہے۔ روس پاکستان کو کچھ نہیں دے سکتا ہے۔ یوکرینی وفد کی بے چینی اور تشویش اس وجہ سے بھی تھی کہ روس نے 2014ء کے آغاز میں یوکرین پر حملہ کرکے ایک حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد مغرب نے روس پر پابندیوں کا اعلان کردیا ہے۔ یہ پابندیاں کس قدر مؤثر ہوں گی اس پر بات کرنے سے پہلے روس اور یوکرین کی معیشت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھیں گے کہ آخر کیوں یوکرین کو نیٹو اور یورپی یونین کی رکنیت نہ دی گئی۔ اس سے قبل ذرا دونوں ملکوں کی معیشت اور فوجی قوت پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے۔
روس کی آبادی 14 کروڑ 67 لاکھ ہے جبکہ یوکرین کی آبادی 4 کروڑ 13 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ روس کا جی ڈی پی 1.48 کھرب ڈالر ہے جبکہ یوکرین کا جی ڈی پی 155.4 ارب ڈالر ہے۔ روس کا دفاعی بجٹ تقریباً 43 ارب ڈالر ہے جبکہ یوکرین 4.3 ارب ڈالر دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ روس کی مسلح افواج کی تعداد تقریباً 10 لاکھ ہے جبکہ یوکرین کے فوجیوں کی تعداد تقریباً ساڑھے 3 لاکھ ہے۔
روس آبادی، معیشت اور دفاعی بجٹ کے اعتبار سے یوکرین سے گئی گنا بڑا ہے اور یوکرین روس کے مقابلے میں محض 31 سال پرانا ملک ہے۔ یوکرین کا فوجی ڈھانچہ بھی روس کے مقابلے میں بہت محدود ہے۔ روس نے سال 2014ء میں یوکرین کے ڈونباس خطے یعنی ڈونسک اور لوہانسک کے علاوہ کریمیا پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔
روس اور یوکرین کے تعلقات میں خرابی کیوں پیدا ہوئی؟
روس کو یوکرین کی جانب سے اعلانِ آزادی کا بہت دکھ تھا مگر چونکہ دیگر ریاستوں نے بھی علیحدگی کا اعلان کردیا تھا تو اس پر روس نے صبر کر لیا تھا۔ روس نے یوکرین کو کامیابی سے ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ بحریہ کے بڑے بیڑے سے بھی محروم کردیا تھا۔
یوکرینی رائے عامہ 2 حصوں میں تقسیم ہے۔ روس کی سرحد کے قریب موجود ڈونباس کے علاقے میں روسی نژاد آبادی ہے جنہیں سابقہ سویت یونین میں تاتار آبادی کی جگہ آباد کیا گیا تھا۔ یوکرینی دارالحکومت کیف اور دیگر علاقوں میں یوکرینی زبان بولنے والی آبادی ہے۔ روسی زبان بولنے والے خطے کے لوگ روس کے ساتھ قربت جبکہ یوکرینی زبان بولنے والے مغرب اور یورپی یونین میں شمولیت کے خواہش مند ہیں۔
یہ سال 2010ء کی بات ہے جب روسی زبان بولنے والے وکٹر یانوکووچ یوکرین کے صدر منتخب ہوئے۔ مگر نااہلی اور بدعنوانی سمیت دیگر مسائل اور روس کی قربت کی وجہ سے وہ جلد عوام میں غیر مقبول ہوگئے۔ انتخابات میں کامیابی کے فوری بعد وکٹر یانوکووچ نے روس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت یوکرین نے روس کو کریمیا میں موجود بلیک سی فلیٹ کے بحری اڈے کی لیز مزید 25 سال بڑھانے کی اجازت دی اور اس کے عوض یوکرین کے لیے 15 ارب روپے مالیت کے فوائد حاصل کرتے ہوئے قدرتی گیس 30 فیصد رعایت پر خریدنے کا معاہدہ کیا۔
اس معاہدے سے یوکرینی عوام میں غصہ بڑھ گیا اور حزبِ اختلاف نے یوکرین کی آزادی روس کو فروخت کرنے کا بیانیہ دیتے ہوئے احتجاج شروع کیا۔ حکومت نے عوامی ردِعمل کو کم کرنے کے لیے یورپی یونین ایسوسی ایشن معاہدے کا اعلان کیا مگر چند ماہ بعد ہی اس کو منسوخ کرنے کا اعلان بھی کردیا یوں پہلے سے جاری عوامی احتجاج نے ہنگاموں کی شکل اختیار کرلی اور یوکرین میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوگئی۔ اس تحریک کو یورو میڈان موومنٹ کا نام دیا گیا جس میں بڑے پیمانے پر سرکاری املاک اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
اس عوامی تحریک کو ختم کرنے کے لیے ایک معاہدہ ہوا مگر معاہدے کے فوری بعد یانوکووچ اپنے ساتھیوں کے ساتھ فرار ہوکر روس چلے گئے۔ اس عمل کو یوکرینی بولنے والوں نے اپنی فتح تصور کیا۔ جبکہ روسی نزاد علاقوں ڈونباس میں ہنگامے پھوٹ پڑے جس کو مبیّنہ طور پر روس نے خانہ جنگی میں تبدیل کردیا۔
سال 2014ء میں ڈونباس مزاحمت کاروں کے قبضے میں آگیا جبکہ کریمیا پر روس نے براہِ راست فوجی کارروائی کرتے ہوئے قبضہ کرلیا اور اپنی حمایت یافتہ حکومت قائم کرلی۔ ڈونباس کے علاقے میں روسی مداخلت اور مزاحمت کار علیحدگی پسندوں کو بھاری ہتھیار فراہم کرنے کا معاملہ اس وقت عالمی برادری کے نوٹس میں آیا جب ڈونباس کے خطے میں ملائیشیا کے طیارے ایم ایچ 17 کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نے مار گرایا۔
مزید پڑھیے: یوکرین بحران کا جلد از جلد حل ناگزیر کیوں ہے؟
روس کی جانب سے جارحانہ رویہ اختیار کیے جانے کی وجہ سے سال 2014ء میں ہی یوکرین 2 خطوں میں تقسیم ہوچکا تھا اور یوکرینی بولنے والوں نے اس کے بعد خود کو یورپ سے منسلک کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔
موجودہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے سب سے پہلے روس پر یوکرین کے انحصار کو ختم کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار کو مقامی پاور پلانٹس پر منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس مقصد کے لیے 24 فروری کو یوکرین نے روس اور بیلا روس سے آنے والے گرڈ کو بند کرکے بجلی کی مقامی طلب کو یوکرین میں موجود 4 ایٹمی بجلی گھروں پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس تجربے کی کامیابی کی صورت میں یوکرین روس اور بیلاروس سے بجلی کی فراہمی کے گرڈ بند کرکے یورپی گرڈ سے خود کو منسلک کرنا چاہتا تھا مگر روس نے اس سے قبل ہی یوکرین پر حملہ کردیا ہے۔ صرف بجلی ہی نہیں بلکہ کوئلے، سیال ایندھن اور قدرتی گیس کے حوالے سے یوکرین روس پر انحصار کررہا ہے۔
یوکرین کو یورپی یونین اور نیٹو کی ممبرشپ کیوں نہ ملی؟
یوکرین کو اپنے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کے بدلے مغربی ملکوں کی جانب سے تحفظ کی یقین دہانی کروائی گئی تھی، ساتھ ہی مغربی ممالک نے عندیہ دیا تھا کہ یوکرین کو نیٹو کی ممبر شپ بھی دی جائے گی۔ امریکا اور نیٹو کی قربت حاصل کرنے کے لیے یوکرین نے عراق پر امریکی حملے کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس نے اپنا فوجی دستہ بھی عراق بھیجا مگر یوکرین کو نیٹو ممبر شپ نہ مل سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نیٹو ممالک روس سے براہِ راست تنازع نہیں چاہتے تھے اور یورپی قیادت کو اس بات کا ادراک پہلے ہی تھا کہ روس جلد یا بدیر یوکرین کو جارحیت کا نشانہ بنائے گا۔
دوسری جانب یوکرین کو یورپی یونین کی بھی مستقل رکنیت نہیں دی گئی جبکہ یورپی یونین میں شمولیت یوکرینی عوام کی شدید خواہش تھی اور محض یورپی یونین سے ایک معاہدہ منسوخ کرنے پر عوامی احتجاج نے روسی حمایت یافتہ صدر کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔
بہرحال یورپی قیادت اپنی مقامی سیاست کی وجہ سے یوکرین کو رکنیت دینے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ یوریی یونین کے رکن ممالک کا خیال تھا کہ یوکرین کو رکنیت دینے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر یوکرینی شہری یورپی ملکوں میں ہجرت کریں گے جس سے ان کی مقامی ملازمت کی مارکیٹ میں رسد طلب سے بڑھ جائے گی جس کے سبب سیاسی عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔
روسی معیشت
روس عالمی معیشت کا ایک بڑا کھلاڑی ہے اور تجارتی لحاظ سے مضبوط ملک ہے۔ روس کی تجارت پر نظر ڈالی جائے تو مجموعی برآمدات 426 ارب ڈالر جبکہ درآمدات 247 ارب ڈالر ہیں۔ روس 4 ہزار 385 مصنوعات دنیا کے 198 ممالک کو برآمد کرتا ہے جبکہ 224 ملکوں سے 4 ہزار 426 مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ روس دنیا میں گندم کے علاوہ پیٹرو کیمیکلز، ہیوی انڈسٹری آلات، ہیوی انجینیئرنگ گڈز اور دیگر اشیا بھی فراہم کرتا ہے۔ خدمات کے شعبے کے مقابلے میں روس کا پیداواری شعبہ زیادہ مستحکم ہے۔
روس دنیا میں امریکا کے بعد سب سے بڑا توانائی پیدا کرنے والا ملک ہے اور یومیہ 50 لاکھ بیرل خام تیل عالمی منڈی میں فروخت کرتا ہے جو عالمی تجارت کا 12 فیصد اور مجموعی پیٹرولیم تجارت کا 10 فیصد ہے۔ روس اپنا 60 فیصد ایندھن یورپی ملکوں کو جبکہ 20 سے 30 فیصد ایندھن چین کو فروخت کرتا ہے۔
روس-یوکرین جنگ اور غذائی قلت
روس اور یوکرین تاریخی طور پر دنیا میں گندم فروخت کرنے والے 2 بڑے ملک ہیں۔ یہ گندم ہی تھی جس نے جرمنی کو 1941ء میں یوکرین پر حملہ کرنے پر مجبور کیا۔ سویت یونین کے لیڈر ویلادیمیر لینن کا کہنا تھا کہ گندم کرنسیوں کی کرنسی ہے۔
سال 22ء-2021ء میں روس اور یوکرین نے مجموعی طور پر 6 کروڑ ٹن گندم برآمد کی ہے۔ یوکرین اپنی گندم بحرہ اسود سے برآمد کرتا ہے اور موجودہ تنازع کی وجہ سے مستقبل قریب میں ان بندرگاہوں کے دوبارہ فعال ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ جبکہ روس اپنی گندم بندرگاہوں اور زمینی راستے سے برآمد کرسکتا ہے۔ روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ممکنہ طور پر مصر، تیونس، مراکش، پاکستان اور انڈونیشیا جیسے بڑے خریدار زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس وجہ سے عالمی منڈی میں گندم کی قیمت بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔
عالمی منڈی میں گندم کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کینیڈا ایک کروڑ 52 لاکھ ٹن اور یورپی یونین 3 کروڑ 75 لاکھ ٹن سے زائد گندم فروخت کرسکتا ہے لیکن اگر گندم کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تو یہ دنیا کے متعدد ملکوں میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرسکتا ہے، اس کی مثال ہم مصر اور تیونس میں عرب بہار اور شام میں خانہ جنگی کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔
یوکرین مغرب سے اتنی محبت کیوں کرتا ہے؟
یوکرین یورپی یونین اور روس کے درمیان ایک بفر ریاست ہے مگر تاریخی طور پر یوکرینی عوام کے دل میں مغربی ممالک خصوصاً امریکا کے لیے ہمدردی اس وقت پیدا ہوئی جب 1986ء میں چرنوبیل ایٹمی پاور پلانٹ میں حادثہ ہوا اور سویت ریاست اس صورتحال سے نمٹنے سے قاصر رہی، ایسے میں یورپی اور امریکی حکومت اور عوام نے بڑے پیمانے پر یوکرین کو سرمایہ فراہم کیا تاکہ دھماکے کے بعد ہونے والی تابکاری سے نمٹا جاسکے۔ امریکی اور یورپی طرزِ عمل نے عوام کے دلوں میں گھر کرلیا۔
یوکرین نے سال 1994ء میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شمولیت اختیار کی اور 1997ء میں نیٹو اور یوکرین کے درمیان شراکت داری کا آغاز ہوا اور نیٹو-یوکرین کمیشن قائم ہوا۔ اس کمیشن میں یوکرین اور نیٹو نے سیاسی، فوجی، سویلین ہنگامی صورتحال، سائنس اور ماحولیات کے امور پر باہمی تعاون کیا۔
روس پر امریکی پابندیاں کس قدر مؤثر؟
یوکرین پر روسی حملے کے بعد اب تک امریکا اور یورپ کی جانب سے دی جانے والی دھمکیاں ایک دیوانے کی بڑھکوں سے زیادہ ثابت نہیں ہوئی ہیں امریکا نے محض روس کے مالیاتی اداروں اور امیر ترین افراد پر ہی پابندیاں عائد کی ہیں اور امریکا کو امید ہے کہ اس طرح وہ روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا۔ امریکا نے جن 5 افراد پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ان پر پہلے ہی پابندیاں عائد ہیں مگر اب ان کے بچے بھی دولت کی منتقلی پر پابندی کے زمرے میں آجائیں گے۔
روس یومیہ 46 ارب ڈالر کا لین دین کرتا ہے۔ جس میں سے 80 فیصد لین دین ڈالر میں ہوتا ہے۔ مگر ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی پابندیاں روس کو بہت کم نقصان پہنچا پائیں گی۔
روس کی امریکا سے تجارت پر جائزہ لیا جائے تو یہ تقریباً 34 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جس میں امریکا روس کو 10 ارب ڈالر کی منصوعات فروخت کرتا ہے جبکہ اس سے 24 ارب ڈالر سے زائد کی مصنوعات کی خریداری کرتا ہے۔ اس طرح امریکا کو روس سے تجارت میں سالانہ 13 ارب ڈالر سے زائد کا خسارے ہوتا ہے۔ تجارت میں روس امریکا کو زیادہ مصنوعات فروخت کرتا ہے جبکہ روس امریکی خدمات پر انحصار کرتا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے روس پر تجارتی پابندیاں اس طرح سے عائد کی ہیں جس سے روس کو تو نقصان ہو مگر توانائی کی مارکیٹ پر کوئی زیادہ اثرات مرتب نہ ہوں۔
مزید پڑھیے: وزیرِاعظم کا دورہ ماسکو: کیا پاکستان نے اپنا رخ بدلنے کا فیصلہ کرلیا؟
روس نے یوکرین پر حملے سے قبل خود کو ان پابندیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے تھے اور بڑے پیمانے پر زرِمبادلہ کے ذخائر کو جمع کرلیا تھا۔ عالمی اداروں کے مطابق روس کے زرِمبادلہ ذخائر کا 16 فیصد امریکی ڈالر، 32 فیصد یورو، 13 فیصد چینی کرنسی یوان، 6.5 فیصد برطانوی پاؤنڈ اور 22 فیصد سونے پر مشتمل ہے۔ روس کے زرِمبادلہ ذخائر اس کے جی ڈی پی کا 10 فیصد ہیں۔
روس کا سوئفٹ نظام سے اخراج
اب تک روس پر یورپ اور امریکا کی جانب سے جو بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ زیادہ مؤثر نظر نہیں آرہی ہیں، اور اب برطانیہ اور دیگر ممالک یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ روس کو بیلجیم میں قائم سوئفٹ (SWIFT -- The Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication) نظام سے خارج کردیا جائے۔
سوئفٹ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں رقم کے لین دین کے لیے یہ نظام مشترکہ طور پر قائم کیا گیا ہے۔ سوئفٹ نظام سے 200 ممالک کے 11 ہزار مالیاتی ادارے منسلک ہیں۔ یہ نظام یورپی سینٹرل بینک، نیشنل بینک آف بیلجیم، امریکی فیڈرل ریزرو اور دیگر بینک مل کر چلاتے ہیں۔ سال 2020ء سوئفٹ کی مجموعی لین دین کا 1.5 فیصد روسی مالیاتی اداروں کا تھا۔ برطانیہ کے مطالبے کے باوجود یورپی یونین کے ممالک روس کو سوئفٹ سے نکالنے پر تقسیم ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ کو فراہم کی جانے والی گیس کی ادائیگیاں روس کو سوئفٹ کے ذریعے ہی کی جاتی ہیں۔ یورپ کی ایندھن ضروریات کا 40 فیصد انحصار روسی گیس پر ہے۔ روس نے دھکمی دی ہے کہ اگر یورپ نے اسے سوئفٹ سے نکلا تو پھر وہ فوری طور پر یورپ کو گیس کی فراہمی بند کردے گا۔ اس کے علاوہ روس نے سوئفٹ کے نظام کے متوازی ایک نظام وضع کرلیا جس کو وہ چین اور دیگر ایشیائی ملکوں کے ساتھ تیزی سے توسیع دے سکتا ہے۔ روسی مرکزی بینک کا قائم کردہ نظام ایس پی ایف ایس اس وقت 400 اداروں کے زیرِ استعمال ہے جو مقامی ادائیگیوں کا پانچواں حصہ کنٹرول کرتے ہیں۔
روس پر پابندیوں کے حوالے سے نہ صرف یورپ میں اختلاف موجود ہے بلکہ ایشیا اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی جانب سے بھی روس پر پابندیوں کی مخالفت کردی گئی ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کو دنیا میں ایک اور سرد جنگ کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر اس سرد جنگ کا مرکز یورپ ہوگا۔ یوں جس یورپ کو اپنی معیشت بحال رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اس کو دفاعی اخراجات میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا۔
اس کے برعکس ماہرین کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین پر حملہ تمام تر تیاریوں کے ساتھ کیا ہے۔ اس نے اپنی مقامی معیشت کو قلعہ بندی کے تحت قائم کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ بیرونی دھچکوں اور پابندیوں سے اس پر زیادہ اثرات مرتب نہ ہوں۔
توانائی کے لیے روس پر یورپ کے انحصار نے یورپی ممالک کے سیاسی مؤقف کو کمزور کیا ہے کیونکہ یورپ روسی ایندھن کے بغیر اپنی صنعتوں کی بندش اور عوام کے مرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا ہے۔ یعنی روس پر امریکی اور یورپی پابندیوں کے باوجود روسی معیشت کو زیادہ نقصان نہیں ہوگا مگر غذائی اجناس اور ایندھن کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔