پاکستان

خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں میں ’ایگزیکٹو‘ علاج کیلئے خصوصی پیکج تیار

موجودہ پیکیج سرکاری و نجی شعبے کے ان افسران اور متمول افراد کیلئے موزوں نہیں تھا جو جنرل وارڈز میں داخلہ نہیں لینا چاہتے تھے،حکام

محکمہ صحت خیبر پختونخوا، سرکاری ملازمین اور دیگر مریضوں کو بیماریوں کے علاج کے لیے اپنی مرضی کے ہسپتالوں میں ایگزیکٹو قیام کا اہل بنانے کے لیے ایک ٹاپ اپ ہیلتھ انشورنس پیکج متعارف کرائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا کہ سوشل ہیلتھ پروٹیکشن انیشی ایٹو کے تحت خیبرپختونخوا کے تمام شہری صحت کارڈ پلس پر فہرست میں شامل ہسپتالوں میں 10 لاکھ روپے سالانہ تک بلا نقد (کیش لیس) علاج حاصل کرنے کے حقدار ہیں۔

اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے عہدیداروں نے بتایا کہ حکومت نئے پیکج کو متعارف کرانے کے لیے مشاورت کررہی ہے، سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی ٹاپ اپ پیکج کا انتخاب کرنے کی اجازت ہوگی، صحت کارڈ پلس پر وارڈز کی سہولیات کے برعکس وہ پریمیم جمع کریں گے اور ایگزیکٹو سہولیات حاصل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت خیبرپختونخوا کے تمام شہری صحت کارڈ پلس پر اپنے علاج کے لیے10 لاکھ روپے خرچ کرنے کے حقدار ہیں اور ٹاپ اپ پیکج کا انتخاب کرنے والوں کو یہ رقم منتقل کر دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: مفت علاج کی اسکیم سے سرکاری ہسپتالوں کی آمدنی میں اضافہ

انہوں نے کہا کہ وہ لوگ ان ہسپتالوں میں پرائیویٹ کمرے اور علاج حاصل کر سکیں گے جو سوشل ہیلتھ پروٹیکشن انیشیٹو (ایس ایچ پی آئی) کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

حکام نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے 74 لاکھ خاندانوں میں سے ہر ایک فرد عام وارڈز میں مفت علاج اور ڈاکٹروں کے ذریعہ معائنہ کرنے کا اہل تھا جنہیں ایس پی ایچ آئی کے ساتھ شامل کیا گیا تھا جبکہ نئے پیکیج میں اس سےمستفید افراد کو ان ہسپتالوں میں علاج کروانے کا اہل بنایا جائے گا جو فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نئے منصوبے سے لوگوں کو انشورنس کمپنی کو سالانہ پریمیم ادا کرنے اور ملک میں کہیں بھی اپنی مرضی کے ہسپتالوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ اختیاری ہو گا اور لوگوں کو ایک پیکج منتخب کرنے کے لیے وقت دیا جائے گا، جو کہ پریمیم کے مطابق ایک کروڑ تک کی سہولیات حاصل کرنے کے لیے 10 ہزار روپے سے شروع ہو کر ایک لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: جگر کی پیوندکاری کو مفت علاج اسکیم میں شامل کرنے کا حکم

حکام کا کہنا تھا کہ موجودہ پیکیج سرکاری اور نجی شعبے کے ان افسران اور متمول افراد کے لیے موزوں نہیں تھا جو جنرل وارڈز میں داخلہ نہیں لینا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے صحت کارڈ پلس کا استعمال نہیں کیا۔

مفت ہیلتھ اسکیم کے آغاز سے اب تک اس کے تحت 22 ارب 60 کروڑ روپے کی لاگت سے 9 لاکھ 26 ہزار مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں صرف غریب لوگ شامل ہیں جنہیں ہسپتال میں قیام کا مسئلہ نہیں بلکہ وہ کیش لیس علاج چاہتے ہیں۔

ایس ایل آئی سی نے گزشتہ چند مہینوں میں ایس ایچ پی آئی کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے سامنے چند ماڈل پیش کیے ہیں جو خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے اس پروگرام کو نافذ کر رہا ہے، امکان ہے کہ وہ اگلے ماہ منظوری کے لیے تازہ ترین ماڈل لے کر آئیں گے۔

نومبر 2020 میں پورے صوبے تک پھیلایا جانے والا یہ پروگرام ملک کے 700 نجی اور سرکاری شعبے کے ہسپتالوں میں مفت خدمات فراہم کر رہا ہے جن میں خیبر پختونخوا کے 185 ہسپتال شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صحت کارڈ کے اجرا سے ہر خاندان کو 10 لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگی، وزیراعظم

صرف وہی لوگ علاج کروا سکتے ہیں جنہیں ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وہ ٹاپ اپ پروگرام کے تحت او پی ڈی خدمات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

حکام نے کہا کہ حکومت نے پہلے ہی لوگوں کے لیے رواں سال کے لیے 22 ارب روپے مختص کیے ہیں، جن کے فنڈز سے حصہ نئے پیکج کے تحت منتقل کیا جائے گا۔

حکام نے کہا کہ صحت کارڈ اسکیم معمول کے مطابق جاری رہے گی لیکن یہ تازہ اقدام ان لوگوں کے لیے ہے، جو اپنی مرضی کے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں میں پرائیویٹ کمرے اور دوائیں چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام میں زیادہ تر بیماریوں کا احاطہ کیا گیا ہے، پروگرام کے تحت شفا انٹرنیشنل ہسپتال، قائداعظم انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر لاہور میں اب تک 50 لاکھ روپے کی لاگت سے 3 لیور ٹرانسپلانٹس کیے جا چکے ہیں۔

حکام نے کہا کہ موجودہ پیکیج میں نجی ہسپتال بھی اِس اصول کے تحت مریضوں کو پرائیوٹ کمرے نہیں دیتے جس کے تحت تمام لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔

بجلی کے نرخ میں 5 روپے 94 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری

پی ایس ایل فائنل : محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی نے سب کے دل جیت لیے

یوکرین کی جارحیت کے خلاف مزاحمت، روس کی سیاسی و معاشی تنہائی میں اضافہ