سیاستدانوں میں پھیلی ‘مِلو ناں’ کی وبا
پہلے کورونا آیا، جس کی وجہ سے سماجی فاصلہ رکھنے کی پابندی عائد ہوگئی اور ملنے ملانے کا سلسلہ ختم ہوگیا، اب ہمارے ہاں ایک اور وبا پھیل چکی ہے، جس کا نام ہے ‘مِلو ناں’ البتہ یہ وائرس عام لوگوں کے بجائے صرف سیاستدانوں میں پھیلا ہے، اور حزبِ اختلاف کے سیاستدان اس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
یہ سارے ایک دوسرے سے یوں تڑپ تڑپ کر مل رہے ہیں گویا خدشہ ہو کہ ‘اب کے ہم بچھڑیں تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں'۔
اب یہ تو طے ہے کہ سیاستدانوں کی ملاقات ہمارے آپ کے ملنے والا معاملہ نہیں ہوتی کہ چائے کے ہوٹل کے باہر پڑی کرسیوں پر جا بیٹھے، چینک منگائی، اور جب تک ‘کوئٹہ، بلوچستان کاکڑ ہوٹل’ کی روشنی گُل نہ کردی جائے اور ‘اُٹو بئی ہوٹل بند کررہا ہے’ کی باقاعدہ بے عزتی کرتی آواز سننے کو نہ ملے، چائے پیتے اور ‘اور بتا، اور سُنا’ کہہ کر دنیا بھر کی فضول باتیں کرتے رہیں۔
سیاستدان، بانو آپا اور جمیلہ خالہ بھی نہیں ہوتے کہ ‘اے بہن کیا بتاؤں’ سے آغاز کریں تو بہو سے اپنی شکایات، بیاہی بیٹی کے صدمات، شوہر کے خیالات، پڑوس کے حالات اور محلے کی ناگفتنی حکایات تک سب بتاتی چلی جائیں۔
مزید پڑھیے: ’میں بھی عمران خان ہوں’، لیکن کونسا والا؟
اہلِ سیاست اسی سے ملتے ہیں اور اتنی ہی بات کرتے ہیں جس سے کچھ ملنے کا آسرا ہو، صاحبِ اقتدار کے کرسی سے ہلنے کا امکان ہو، نیب جیسی کسی آئی بلا کے ٹلنے کی امید بندھے اور اپنے حکمرانی کے راستے پر چلنے کی راہ سوجھے۔
سیاستدان ‘دن دیہاڑے’ بھی ملتے ہیں اور چھپ چھپ کر بھی ملاقاتیں کرتے ہیں، لیکن یہ چھپ چُھپا کر ملنا آپس میں نہیں ہوتا، بلکہ ان سے ہوتا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے ‘یہ منصبِ بلند ملا جس کو مل گیا’، لیکن صرف ان سے مل لینا کافی نہیں، ان کے ساتھ مل کر چلنے سے بات بنتی ہے، ایسا نہ کرنے والے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں، اور پھر انہیں لبھانے اور رجھانے کے لیے گاتے ہیں، ‘اگر تم مل جاؤ، زمانہ چھوڑ دیں گے ہم’ یہ گانا گانے کے لیے گانے والے بطور ریاض ‘ایسے دستور کو، صبح بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا’ گاتے رہتے ہیں۔
دوسری طرف ‘منصبِ بلند والے’ سیاستدانوں کو اِدھر اُدھر ملتے دیکھ کر مسکراتے اور گاتے ہیں شوق سے سب سے ملو، سب سے مل آؤ تو اک بار مرے ‘دل’ سے ملو۔ ان سے مل کر جنہیں کچھ نہیں ملتا، وہ وہیں ملتے ہیں جہاں سے چلے تھے، اور جنہیں تھپکی مل جائے پھر ان کا دماغ نہیں ملتا۔
ان سے خفیہ ملاقاتیں کرنے والے کسی بظاہر الہڑ بہ باطن گڑبڑ خاتون کی محبوب سے وصل کی طرح ایسی کسی بھی ملاقات سے انکاری ہوجاتے ہیں، لیکن پردہ فاش ہوجائے تو شرما کر کہہ دیتے ہیں، ‘یونہی کوئی مل گیا تھا سرِ راہ چلتے چلتے'۔
مزید پڑھیے: وزیروں کا ٹھکانا، پرندوں کا آشیانہ، واہ کیا دوستانہ
‘مِلو ناں’ کی وبا میں ہونے والی سب سے اہم اور دلچسپ ملاقات میاں شہباز شریف اور چوہدری شجاعت کی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں شجاعت اور شہباز لازم و ملزوم ہیں، مگر یہ دونوں ایک دوسرے کو اپنا ملزم سمجھتے اور کہتے رہے ہیں، لیکن جب ملاقات لازمی ٹھہری تو 14 سال بعد مل بیٹھے۔
ان دو ‘شین’ کے ملنے کا سین دیکھ کر لطف آگیا۔ دونوں شخصیات نے ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد یقیناً یہ مصرع تو نہیں پڑھا ہوگا ‘برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دل ربا سا’ لیکن مجبوریوں کے پیش نظر بُرا سا منہ بھی نہیں بنایا ہوگا۔ ممکن ہے اس موقع پر چوہدری شجاعت کو ایک پرانا فلمی گانا یاد آگیا ہو اور وہ گنگنا اٹھے ہوں ‘مجھے تم سے ہیں کتنے گِلے کیوں اتنے دن بعد ملے بولو اتنے دن کیا کیا؟’
اگر شہباز شریف کی سماعت نے بہ زبان چوہدری شجاعت ادا ہونے والے یہ بول سمجھ لیے ہوں گے تو جواباً وہ لہک لہک کر اور جُھوم جُھوم کر گانے کے اگلے بول گانے لگے ہوں گے ‘ترا نام لیا تجھے یاد کیا’ اس ملاقات میں جو بھی کہا سنا گیا ہو لیکن یہ تو سامنے کی بات ہے کہ (ن) لیگ جو چوہدری شجاعت کے جنرل پرویز مشرف سے ناتا جوڑنے کے بعد سے اپنی جماعت میں ان کا کھاتا بند کرچکی تھی اور چوہدری صاحب اور ان کی جماعت (ق) لیگ کا وجود جسے ایک آنکھ نہیں بھاتا اسے حالات نے مجبور کردیا ‘سبق پھر پڑھ شجاعت کا'۔
مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی بھی ملاقات ہوئی۔ صاف ظاہر ہے اس ملاقات میں (ن) لیگ نے ایم کیو ایم سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی درخواست کی ہوگی۔ (ن) لیگ کو توقع ہوگی کہ ایم کیو ایم والے ہیں تو ‘ساتھی’ لیکن ساتھ چھوڑنے پر آئیں تو ‘بھائی’ سے بھی ‘جی بھائی جی بھائی’ کرتے کرتے ‘جا بھائی’ کہہ کر ٹاٹا بائے بائے کردیں۔
ان سے مسلم لیگ (ن) نے کہا ہوگا ‘آپ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں’ جواب ملا ہوگا جی نہیں ہم ‘پوچھ’ سمجھ کر فیصلہ کریں گے۔
مزید پڑھیے: ’نیا پاکستان بھی کَھپّے‘
یہ سن کر (ن) لیگ کو یاد آگیا ہوگا کہ ایم کیو ایم اب ‘جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے’ کے بجائے جو تم ‘کہو’ گے وہ ہم کریں گے، کی پالیسی اختیار کرچکی ہے۔
پہنچنا آصف زرداری اور بلاول کا شریف خاندان کی رہائش گاہ بھی ‘مِلو ناں’ وبا ہی کے زیرِ اثر تھا۔ اس موقع پر شریف اور زرداری ایک ساتھ کھاتے نظر آئے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ بعض سیاستدانوں کی کھوپڑی میں دماغ اور سیاست کے سینے میں دل ہو نہ ہو اس کا پیٹ ضرور ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا بھی ملنا ملانا جاری ہے۔ خیر مولانا کا تو حکومت کو گرانے کی دُھن میں شروع دن سے یہ عالم ہے کہ ‘کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا’۔ اور عمران خان کی حکومت آنے کے بعد سے مولانا ہر ایک سے اس خواہش کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ یا ہو یہ بات کہ گرے وہ شخص یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے۔
سنا ہے کہ ‘مِلو ناں’ کی لہر تحریک حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد آنے تک اسی طرح جاری رہے گی اور اگر تحریک عدمِ اعتماد عدم کو سدھار گئی تو مارچ اور دھرنے کے لیے ‘چلو ناں’ کی وبا پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔
یہ طنزیہ تحریر ہے
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔