وزرائے اعلیٰ کو پی ٹی آئی کے ’روٹھے‘ قانون سازوں کو منانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی
حکومت کے خلاف اپوزیشن کے تحریک عدم اعتماد کے منصوبے سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اعلیٰ قیادت نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ ناراض قانون سازوں سے رابطے بحال کرتے ہوئے ان کے تحفظات دور کریں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوسری جانب تین بڑی اپوزیشن جماعتوں کے سینئر رہنما عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔
وفاقی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ عثمان بزدار اور محمود خان کو ذمہ داری سونپی ہے کہ مخالف رائے رکھنے والے پارٹی کے قانون سازوں سے روابط قائم کرتے ہوئے ان کے ذاتی تحفظات دور کریں اور ان کے حلقوں میں ترقیاتی کام کروائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنے اپنے حلقوں اور ذاتی کاموں سے متعلق مسائل درپیش ہیں، وزیر اعلیٰ وہ شخص ہوتا ہے جو ان تحفظات سے نمٹتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دونوں وزرائے اعلیٰ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے‘۔
مزید پڑھیں: 'تحریک عدم اعتماد لانے والوں پر ان کے گھر والے بھی اعتبار نہیں کرتے تو قوم کیسے کرے'
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس سے واپسی کے بعد وفاقی حکومت کے عہدیداران کا پی ٹی آئی کے مضبوط اور وفادار رہنما جہانگیر ترین سے ملنے کا امکان ہے، جنہیں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کی تحریک نے عمران خان کی حکومت کو پریشان کردیا ہے، جس کے بعد وزرائے اعلیٰ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی، حالانکہ وزیر اعظم نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کابینہ کے اراکین سے کہا ہے کہ ’آپ نے کسی چیز سے گھبرانا نہیں ہے‘۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ڈان کو بتایا کہ حکومت اپنے قانون سازوں سے رابطے میں ہے اور پُراعتماد ہے کہ کوئی بھی غلط مہم جوئی میں اپوزیشن کا ساتھ نہیں دے گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن، حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے اقدام پر ہنگامہ برپا کر رہی ہے لیکن عملی طور پر یہ چائے کی پیالی میں طوفان کے سوا کچھ نہیں۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کیلئے درکار تعداد سے زیادہ لوگوں سے رابطے میں ہے، رانا ثنااللہ
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ اگر اپوزیشن ایسا کرنے کی ہمت رکھتی ہے تو حکومت باآسانی انہیں شکست دے گی۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ آئینی اسکیم میں حکومت کا حصہ ہے‘۔
پنجاب کے وزیر برائے جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے ڈان کو بتایا کہ عثمان بزدار، پی ٹی آئی کے قانون سازوں سے رابطے میں ہیں اور اُن کے حلقوں میں موجود مسائل سے نمٹیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جہانگیر ترین بھی رابطے میں ہیں اور اگر انہیں کوئی مسائل ہیں تو حکومت ان سے بات کرسکتی ہے، ہم مثبت سوچتے ہیں کہ جہانگیر ترین شریفوں کے جال میں نہیں پھنسیں گے‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے 15 اراکین صوبائی اسمبلی، پی ٹی آئی سے رابطے میں ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ صوبے میں اپوزیشن کی کسی بھی تحریک کے خلاف حکمراں جماعت کی حمایت کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد لانے میں جلدی لوٹی ہوئی دولت بچانے کیلئے ہے، وزیراعظم
دریں اثنا پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کی اعلیٰ قیادت نے بلاول ہاؤس لاہور میں عشائیہ پر ایک غیر نتیجہ خیز اجلاس کیا تاکہ حکومت کے خلاف اپنی حکمت عملی کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی دعوت پر شہباز شریف نے احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنااللہ اور مریم اورنگزیب کے ہمراہ بلاول ہاؤس کا دورہ کیا۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے نہ آنے کی وجہ سے آج مسلم لیگ (ن) کے صدر کی رہائش گاہ پر دوبارہ ملاقات کا فیصلہ کیا گیا، جس میں بلاول بھٹو زرداری موجود ہوں گے۔
اجلاس میں جے یو آئی (ف) کی نمائندگی مولانا فضل الرحمٰن کے صاحبزادے اسد محمود اور سابق وزیر اعلیٰ کے پی اکرم درانی نے کی جبکہ میزبانوں میں بلاول بھٹو زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف اور مخدوم احمد محمود شامل تھے۔
بعد ازاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے ملاقات بھی کی، سابق صدر اس سے قبل 5 فروری کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما کی رہائش گاہ پر گئے تھے اور انہوں نے اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم تحریک عدم اعتماد کل لے کر آئے، فواد چوہدری
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے مشورہ دیا کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بجائے انہیں اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے اگر پی ٹی آئی کے اتحادی مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) ان سے الگ نہیں ہوتے ہیں تو کم از کم ایک درجن سے زائد ناراض حکمران پارٹی کے قانون سازوں کو مستعفی ہو جانا چاہیے تاکہ حکومت اپنی اکثریت کھو دے اور وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور ہو جائیں۔
تاہم پیپلز پارٹی نے عدم اعتماد کے ووٹ کے عمل میں ان کے اہم کردار کی وجہ سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف اپوزیشن کے اقدام کی تجویز پیش کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مخدوم احمد نے شرکا کو ترین گروپ کی پوزیشن اور اپوزیشن سے توقعات کے بارے میں آگاہ کیا۔
وفد میں شامل مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے کہا کہ اجلاس میں کوئی ٹھوس حکمت عملی پر بات نہیں ہو سکی، یہ نہیں کہہ سکتے کہ شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے اپنی ملاقات میں کوئی فائدہ مند بات کی ہے اور تمام معاملات آئندہ ملاقات پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ڈی ایم کا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان
بعد ازاں ایک بیان میں کہا گیا کہ رہنماؤں نے حکومت کے خلاف مجوزہ عدم اعتماد کے اقدام پر تبادلہ خیال کیا، قیادت اس بات پر متفق تھی کہ مہنگائی عوام کو نقصان پہنچا رہی ہے اور حکومت کو گھر بھیج کر ہی عوام کو بچایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے عوام کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے تندہی سے کام کرنے کا عہد کیا۔
اجلاس میں ملک میں لاقانونیت پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) آرڈیننس کی مخالفت بھی کی گئی اور اسے فاشسٹ اور آمرانہ قانون قرار دیا گیا۔
اسلام آباد میں جے یو آئی (ف) کی مرکزی مجلس شوریٰ نے پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو اختیار دیا کہ وہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی منصوبہ بندی، تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ اگلے ماہ کے لانگ مارچ کے بارے میں فیصلے کریں۔
جے یو آئی (ف) کے ترجمان کے جاری کردہ بیان کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے مجلس شوریٰ کو آصف علی زرداری، شہباز شریف اور گجرات کے چوہدریوں سے اپنی حالیہ ملاقاتوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
انہوں نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے اپوزیشن کی حکمت عملی سے بھی آگاہ کیا اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے لانگ مارچ کے انتظامات کا جائزہ لیا۔