پاکستان

انتخابی قانون میں ترمیم الیکشن کمیشن کیلئے باعثِ تشویش

قانون کے تحت انتخابات میں حصہ لینے والوں اور اس کی نگرانی کرنے والوں کیلئے ضابطہ اخلاق وضع کرنا کمیشن کا کام ہے، ای سی پی حکام

الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کرنے والے متنازع آرڈیننس کے تحت وزیروں سمیت عوامی عہدے داروں کو انتخابی امیدواروں کی مہم میں حصہ لینے کی اجازت ملنے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان(ای سی پی) کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر صدارت ای سی پی کے اجلاس میں نوٹ کیا گیا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد حکومت انتخابات میں اپنا اثر و رسوخ اور ریاستی وسائل استعمال کر سکے گی، جس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ تمام امیدواروں کو مہم چلانے کے لیے ایک جیسے مواقع نہ ملیں۔

الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 181 میں کہا گیا ہے کہ 'کوئی بھی حکومتی عہدیدار یا منتخب نمائندہ بشمول مقامی حکومت کا عہدیدار یا منتخب نمائندہ، اس حلقے کے انتخابی پروگرام کے اعلان کے بعد کسی حلقے کے لیے کسی ترقیاتی اسکیم کا اعلان نہیں کرے گا'۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے جاری کردہ آرڈیننس کے ذریعے ایکٹ میں دفعہ 181(اے) کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

نیا قانون پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی یا بلدیاتی حکومت کے منتخب رکن بشمول آئین یا کسی دوسرے قانون کے تحت کسی بھی عہدے پر فائز رکن کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی علاقے یا حلقے میں عوامی جلسوں میں جاسکیں یا خطاب کرسکیں۔

تاہم ای سی پی حکام نے کہا کہ انتخابی ایکٹ کی دفعہ 233 کے تحت سیاسی جماعتوں، انتخابی مہم میں حصہ لینے والے امیدواروں اور انتخابی مشق میں شامل دیگر افراد کے لیے ضابطہ اخلاق وضع کرنا ان کا کام ہے۔

الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 233 میں کہا گیا ہے کہ کمیشن، سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت سے، سیاسی جماعتوں، انتخاب لڑنے والے امیدواروں، انتخابی ایجنٹوں اور پولنگ ایجنٹوں کے لیے ضابطہ اخلاق وضع کرے گا۔

مزید پڑھیں:حکومت کا اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کیلئے آرڈیننس لانے کا منصوبہ

ساتھ ہی کمیشن سیکیورٹی اہلکاروں، میڈیا اور انتخابی مبصرین کے لیے بھی ضابطہ اخلاق وضع کرے گا۔

اس کے علاوہ سیاسی جماعت، امیدوار، الیکشن ایجنٹ، پولنگ ایجنٹ، سیکیورٹی اہلکار، میڈیا اور مبصر انتخاب کے دوران اس ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں گے۔

دفعہ 233 میں مزید کہا گیا کہ کمیشن اس دفعہ کے تحت وضع کردہ ضابطہ اخلاق کو سرکاری گزیٹ اور اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے گا۔

اس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو آئین کی دفعہ 222 کے تحت کوئی بھی ایسا قانون منظور کرنے سے روک دیا گیا ہے جس کا تاثر چیف الیکشن کمشنر یا خود کمیشن کے کسی بھی اختیارات کو چھیننے یا ختم کرنے کا ہو۔

بعد ازاں کمیشن کی ہدایت پر سیکریٹری عمر حمید خان کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے لیگل ونگ پر مشتمل ٹیم نے اٹارنی جنرل سے اس معاملے پر بات چیت کی۔

یہ بھی پڑھیں: قائمہ کمیٹی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل منظور کرلیا

ذرائع نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے اصرار کیا کہ تبدیلی کسی قانون کے خلاف نہیں ہے، ای سی پی کی ٹیم جلد ہی کمیشن کو اٹارنی جنرل سے ملاقات کے بارے میں بریف کرے گی جس کے بعد لائحہ عمل اپنایا جائے گا۔

اس متنازع تبدیلی کو بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ٹوئٹ کیا کہ حکومت نے 'پارلیمنٹ کو متعدد صدارتی آرڈیننس منظور کرنے کے لیے ملتوی کر دیا ہے جس سے ان کے وزرا کو اقتدار میں رہتے ہوئے انتخابات کی مہم کے لیے ریاستی وسائل کا غلط استعمال کرنے کی بے مثال صلاحیت ملے گی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے خوف میں کتنے آگے بڑھ گئے ہیں'۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے اس سے قبل کہا تھا کہ الیکشن ایکٹ، جسے پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا، اس میں یکطرفہ ترامیم 'آمرانہ ذہنیت' کا مظہر ہے۔