بے جان میچ 'سُپر مقابلہ' بن گیا
یہ ایسا مقابلہ تھا کہ جس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا، نہ کسی کے اگلے مرحلے تک رسائی میں رکاوٹ تھی اور نہ ہی کسی کو اپنا نیٹ رن ریٹ بڑھانے کی ضرورت تھی۔ لیکن جو مقابلہ ہوا وہ فائنل کے شایانِ شان تھا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے تقریباً 25 ہزار تماشائی میدان میں موجود تھے، وہ بھی پیر کے دن۔ اسی لیے تو لاہوریوں کو زندہ دل کہا جاتا ہے۔ انہی کے جوش و خروش اور ولولے نے ایک بے جان مقابلے میں ایسی جان ڈالی کہ معاملہ سُپر اوور تک چلا گیا۔
جی ہاں! پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 7 کے لیگ مرحلے کا آخری مقابلہ سنسنی خیزی کی تمام حدیں پار کرتا ہوا آخر میں ٹائی ہوگیا تھا۔
بعد ازاں سپر اوور میں پشاور زلمی نے لاہور قلندرز کو ہرا دیا۔ یہ نتیجہ تو تماشائیوں کو پسند نہیں آیا ہوگا لیکن نہ صرف انہوں نے، بلکہ ہر دیکھنے والے نے مقابلے کا خوب لطف اٹھایا۔
اب پلے آف میں کون ہوگا کس کے مقابل؟
اس کے ساتھ ہی پاکستان سپر لیگ کے ساتویں سیزن کا پہلا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ دفاعی چیمپئن ملتان سلطانز اپنے 10 مقابلوں میں صرف ایک شکست کھا کر 18 پوائنٹس کے ساتھ سب سے اوپر نظر آ رہے ہیں۔ اتنے پوائنٹس تو پی ایس ایل کی تاریخ میں کسی ٹیم نے حاصل نہیں کیے۔
پھر لاہور قلندرز کا نام ہے جو اپنے 6 میچ جیت کر 12 پوائنٹس اور بہتر نیٹ رن ریٹ کی بدولت دوسرے نمبر پر ہے۔ ہم 23 فروری کو انہی دونوں ٹیموں کو کوالیفائر میں لڑتا ہوا دیکھیں گے، یعنی ’آل پنجاب ڈربی‘ فیصلہ کرے گی کہ فائنل میں پہلے کون پہنچے گا۔
لاہور اس سے پہلے صرف ایک بار یعنی 2020ء میں پلے آف مرحلے تک پہنچا ہے۔ تب وہ دونوں ایلیمنیٹر جیت کر فائنل تک بھی پہنچا تھا لیکن روایتی حریف کراچی کنگز سے ہار گیا۔
خیر، پہلے ایلیمنیٹر میں ہمیں پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ مدِمقابل نظر آئیں گے۔ پشاور نے مسلسل 4 فتوحات کے ساتھ پلے آف میں جگہ پائی ہے جبکہ اسلام آباد مسلسل 3 شکستوں کے بعد اللہ اللہ کرکے یہاں تک آیا ہے۔ اب دونوں کو ناک آؤٹ صورتحال کا سامنا ہے۔
جنگل میں منگل
اب چلتے ہیں ذرا اس میچ کی جانب کہ جس نے آدھی رات کو ’جنگل میں منگل‘ کا سماں پیدا کردیا۔ مقابلے کی چنداں کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ پورا لاہور امڈ آیا ہے۔ لگ بھگ 25 ہزار تماشائیوں نے میدان کا رخ کیا کہ جنہیں پہلے پشاور زلمی کی بلے بازی دیکھنے کو ملی۔
پشاور کی اننگ ابتدا ہی سے دباؤ کا شکار نظر آئی، یہاں تک کہ جب 14ویں اوور میں شعیب ملک بھی 32 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئے تو ایک بڑے اسکور کی امید بھی تمام ہوئی۔ آخری 6 اوور میں پشاور اسکور میں صرف 47 رنز کا اضافہ ہی کر پایا اور لاہور کو جیت کے لیے محض 159 رنز کا ہدف دیا۔
اب ذرا تعاقب میں پشاور کی قسمت اور لاہور کا حال دیکھیں۔ وہاب ریاض نے پہلا اوور شعیب ملک کو دیا اور انہوں نے پہلی ہی گیند پر فخر زمان کو آؤٹ کردیا۔ یعنی لاہور کے خلاف کامیابی کی پہلی اینٹ تو وہیں رکھ دی گئی کیونکہ فخر کی اننگ ختم ہونے کا مطلب ہے کہ لاہور کو ہرایا جاسکتا ہے۔
میدان میں چھانے والی خاموشی کو کامران غلام کی 18 گیندوں پر 25 رنز کی اننگ نے توڑا، لیکن پاور پلے ختم ہونے سے پہلے ہی ان کی اننگ بہت غیر معمولی انداز میں ختم ہوئی۔
کیچ آف دی سیزن
کامران غلام ارشد اقبال کی ایک گیند کو پُل کرنے گئے، گیند ہوا میں اٹھی اور اسکوائر لیگ پر کھڑے فیلڈر حضرت اللہ زازئی اسے پکڑنے کے لیے پیچھے کی طرف دوڑے۔ گیند ان کے ہاتھ میں بھی آئی، لیکن وہ اس پر گرفت نہ پاسکے اور وہ ہاتھوں سے نکل گئی۔ تب تک ڈیپ اسکوائر لیگ سے محمد حارث بھی ان کے قریب آچکے تھے۔ کیچ ڈراپ ہونے کے بعد بال زمین سے ٹکرانے ہی والی تھی کہ حارث نے ایک غیر معمولی جست لگا کر بالکل آخری لمحات میں گیند کو پکڑ لیا۔
ری پلے سے ثابت ہوا کہ یہ واقعی ایک کیچ تھا، ورنہ ایک نظر میں تو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ ہوا کیا ہے۔ اسے صرف میچ کا ہی نہیں، بلکہ پورے سیزن کا بہترین کیچ شمار کیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل کوئٹہ کے خلاف میچ میں بحیثیت وکٹ کیپر بھی محمد حارث نے ایسا ہی کیچ پکڑا تھا اور خوب داد سمیٹی تھی۔
لاہور کو پے در پے دھچکے
پاور پلے میں 3 بلے بازوں کے آؤٹ ہونے کے بعد لاہور کی اننگ سنبھل ہی نہیں پائی، یا یوں کہہ لیں کہ پشاور نے انہیں موقع ہی نہیں دیا۔
برتھ ڈے بوائے اور پچھلے میچ میں سنچری بنانے والے ہیری بروک آج عماد بٹ کے ہتھے چڑھ گئے۔ صرف 2 رنز ہی بنائے تھے کہ عماد کی ایک اندر آتی ہوئی گیند پر ان کے خلاف ایک زوردار اپیل ہوئی۔ امپائر سمجھے کہ گیند بلے کو لگنے کے بعد پیڈ پر لگی ہے اور انہیں ناٹ آؤٹ قرار دیا لیکن عماد بٹ کے اصرار پر پشاور زلمی نے ریویو لے لیا۔ ری پلے میں واضح ہوگیا کہ گیند پہلے پیڈ کو لگی تھی۔ یوں بروک ایل بی ڈبلیو قرار پائے اور کچھ ہی دیر میں صرف 88 رنز پر لاہور کی آدھی ٹیم آؤٹ ہوچکی تھی۔
رینگ رینگ کر معاملہ آخری 2 اوورز میں 30 رنز کی ضرورت تک پہنچا۔ یہ ہدف بالکل حاصل کیا جاسکتا تھا کیونکہ محمد حفیظ کریز پر موجود تھے۔ لیکن جب تمام امیدیں ان سے وابستہ تھیں تب وہ 19ویں اوور کی پہلی ہی گیند پر لڑھک لیے۔ گویا لاہور کا قصہ ہی تمام ہوگیا!
آخری اوور، آخری گولی، آخری سپاہی
آخری اوور شروع ہوا تو لاہور کو 24 رنز درکار تھے اور صرف 2 وکٹیں باقی تھی۔ وہاب ریاض نے گیند نوجوان باؤلر محمد عمر کے ہاتھ میں تھمائی، جن کے سامنے لاہور کے کپتان شاہین آفریدی بلے بازی کررہے تھے۔ یہاں بھلا کس کو توقع تھی کہ شاہین 24 رنز بنا لیں گے؟ لیکن ایک چوکے اور پھر پے در پے 2 چھکوں نے میدان میں سنسنی دوڑا دی۔
جب 3 گیندوں پر صرف 7 رنز درکار تھے تو عمر نے مسلسل 2 گیندوں پر کوئی رن نہیں دیا اور معاملہ آخری گیند پر 7 رنز پر چلا گیا۔ یعنی پشاور ہار نہیں سکتا تھا، لیکن شاہین نے بھی حوصلہ نہیں ہارا تھا۔ انہوں نے آخری گیند پر دن کا سب سے شاندار چھکا لگا کر میچ برابر کردیا اور پھر خاص الخاص ’آفریدی پوز‘ دیا۔
ویسے معاملے کو یہاں تک پہنچانے میں کچھ کردار زلمی فیلڈرز کا بھی تھا۔ آخر میں نجانے کیوں ان کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے؟ کیچ پکڑنے کے 2 مواقع ضائع کیے، چند مس فیلڈز بھی کیں بلکہ اوور تھرو کے رنز تک دیے۔
بہرحال، اس یادگار چھکے کے ساتھ ہی میدان پوری طرح جاگ چکا تھا۔ ایک بے جان مقابلے کے لیے ٹکٹ خریدنے والوں کے پورے پیسے وصول ہوچکے تھے۔
سپر باؤلر کے سپر اوورز
یہاں وہاب ریاض سب سے زیادہ لائقِ تحسین ہیں۔ انہوں نے دن کے مشکل ترین مراحل پر 2 خوبصورت ترین اوورز پھینکے۔ ایک تو وہ 19واں اوور پھینکا جب لاہور کو 30 رنز درکار تھے اور محمد حفیظ بھی کریز پر موجود تھے۔ اس اوور میں انہوں نے صرف 6 رنز دیے اور 2 وکٹیں بھی حاصل کیں۔
پھر محمد عمر کے 23 رنز کھا جانے کی وجہ سے جب مقابلہ ٹائی ہوگیا تو وہاب ریاض نے سپر اوور خود پھینکنے کا فیصلہ کیا اور صرف اور صرف 5 رنز دیے۔ جی ہاں! فخر زمان اور ہیری بروک ان کے سامنے تھے لیکن وہاب نے کسی کی نہ چلنے دی۔
پشاور کو جیت کے لیے صرف 6 رنز کا ہدف ملا، اور انہوں نے اس بار کوئی غلطی نہیں کی۔ تعاقب میں محمد حارث کے ساتھ شعیب ملک کو بھیجا، یعنی باؤلنگ میں تجربے کی کامیابی کے بعد بیٹنگ میں بھی تجربہ کار کو میدان میں اتارا۔ ملک صاحب نے شاہین آفریدی کو پہلی دونوں گیندوں پر ہی چوکے رسید کرکے مقابلے کا خاتمہ کردیا۔
لاہوریوں کے لیے تو یہ 'اینٹی کلائمیکس' تھا لیکن ہم یہی کہیں گے کہ حق بہ حقدار رسید! پشاور نے صرف 158 رنز کا دفاع کرنے کے لیے جس شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا تھا، اس پر فتح کے اصل مستحق بھی وہی تھے۔
لاہور کو اب سنبھلنا ہوگا
لاہور نے سیزن کے ابتدائی 7 مقابلوں میں صرف 2 شکستیں کھائیں، لیکن آخر میں 3 میں سے 2 میچ ہار چکے ہیں۔ اس لیے انہیں اب سنبھلنا ہوگا۔ ہر بار آخری اوور میں آخری کھلاڑی 23 رنز نہیں بنائے گا۔ اس سے پہلے بھی 159 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ہدف سے 30 رنز کی دوری پر ہی 8 وکٹیں گنوا بیٹھنا اور تجربہ کار ترین بلے بازوں کا نازک ترین موقع پر دھوکا دے جانا لاہور کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
بہرحال، وہ اپنی کوششوں اور شاندار کھیل کی بدولت ہی پوائنٹس ٹیبل پر دوسرے نمبر پر ہیں۔ اس لیے ان کے پاس اب بھی غلطی کی گنجائش ہے۔ پھر بھی وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ فائنل کے لیے لمبا راستہ اختیار کریں بلکہ کوالیفائر جیت کر ہی اپنی ٹکٹ پکی کرنا چاہیں گے۔ لیکن اس کے لیے انہیں اپنے گیم کو بہتر کرنا ہوگا۔
زلمی: اب مشکلات کے لیے تیار
اس سیزن میں پشاور کا حال تو بہت ہی بُرا تھا۔ ابتدائی 6 میچوں میں صرف 2 کامیابیاں پانے کے بعد تو کہا جا رہا تھا کہ کراچی کے ساتھ پشاور باہر ہوجائے گا۔ لیکن پھر زلمی نے مسلسل 4 فتوحات حاصل کیں اور اب وہ بڑے اعتماد کے ساتھ پلے آف میں جائیں گے، جہاں ان کا مقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ سے ہوگا، جو مسلسل 3 شکستوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح اگلے مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔
لیکن زلمی کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا فائنل کا راستہ آسان نہیں ہے۔ اسے نہ صرف پہلا ایلیمنیٹر جیتنا ہے بلکہ بعد میں کوالیفائر میں شکست کھانے والی ٹیم کو بھی ہرا کر خود کو فائنل کا اہل ثابت کرنا ہے یعنی ان کے لیے معاملہ ناک آؤٹ ہے۔ ایک غلطی ہوئی نہیں اور مہم کا خاتمہ! اس لیے پشاور-لاہور مقابلے کی غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے اسلام آباد انہیں اتنے مواقع نہ دے۔
فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔