یوکرین تنازع میں اضافہ، جو بائیڈن اور ولادیمیر پیوٹن اجلاس بلانے پر متفق
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن نے اجلاس بلانے پر اتفاق کرلیا جو ماسکو کی جانب سے یوکرین پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں منعقد کیا جائے گا۔
فرانس کی جانب سے یہ اعلان جنگ کو مکمل طرو پر روکنے کے لیے سفارت کاری کے نئے دور کے بعد سامنے آیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق فرانسیسی صدر کے دفتر کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے تجویز کردہ اجلاس کے لیے اصولی طور پر رضامندی ظاہر کی ہے، وائٹ ہاؤس نے بھی محتاط انداز میں بائیڈن کی رضامندی کی تصدیق کی۔
انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ وقت کا تعین کیا جائے گا، فارمیٹ کا تعین کیا جائے گا تاکہ یہ سب مکمل طور پر مجوزہ طریقے پر ہو۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پابندیاں عائد کیں تو دونوں ملکوں کے تعلقات ختم ہو جائیں گے، پیوٹن
ایلیسی کا مزید کہنا تھا کہ سربراہی اجلاس کو متعلقہ اسٹیک ہولڈرز تک بڑھایا جائے گا اور اجلاس سے متعلق روس اور امریکا کے درمیان جمعرات کو تیاریاں شروع ہوں گی۔
ممکنہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب امریکا نے ممکنہ حملے کے بارے میں خبردار کیا اور یوکرین، روس نے ایک دوسرے پر کیف کی افواج کو ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں سے الگ کرنے والی سرحد پر گولہ باری میں اضافے کا الزام لگایا۔
بمباری نے یوکرینی شہریوں کو تہہ خانوں اور دیگر پناہ گاہوں کی جانب بھاگنے پر مجبور کردیا ہے، جب کہ کچھ شہریوں کو وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔
اپنے بیان میں وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا کہ اگر روس نے حملہ کیا تو وہ فوری اور سنگین نتائج کے لیے تیار ہے۔
امریکی پریس سیکریٹری جین ساکی کا کہنا تھا کہ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ روس، یوکرین پر مکمل حملے کی تیاری جاری رکھے گا۔
مزید پڑھیں: روس کے امریکا سے اگلے ماہ سیکیورٹی مذاکرات
واشنگٹن اور دیگر مغربی دارالحکومتوں کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین کی سرحدوں پر ایک لاکھ 50 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو تعینات کردیا ہے اور وہ مکمل طور پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
ماسکو اپنے پڑوسی پر حملہ کرنے کے کسی ارادے کی تردید کرتا ہے لیکن اس نے مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو اتحاد، یوکرین کی رکنیت کی درخواست کو مستقل طور پر مسترد کرے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے مشرقی یورپ میں تعینات مغربی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا ہے۔
میکرون ۔ پیوٹن کالز
اجلاس کا اعلان میکرون کی پیوٹن کے ساتھ اس دن کی دوسری طویل ٹیلی فون کال کے چند لمحوں بعد سامنے آیا۔
کریملن کے بیان کے مطابق ایک گھنٹے اور 5 منٹ کی ٹیلی فونک گفتگو کے دوران صدر ولادیمیر پیوٹن نے دعویٰ کیا کہ یوکرینی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اشتعال دلائے جانے کے بعد اگلے مورچوں پر لڑائی میں شدت آئی۔
یہ بھی پڑھیں: مغربی ممالک نے جارحانہ رویہ جاری رکھا تو ہمیں بھی اقدامات کرنے ہوں گے، روسی صدر
روسی صدر نے امریکا اور نیٹو سے سلامتی کی ضمانتوں کے لیے روسی مطالبات کو سنجیدگی سے لینے کا مطالبہ دہرایا۔
تاہم فرانسیسی صدر کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق دونوں ممالک نے جاری بحران کے سفارتی حل کی حمایت کرنے اور اس کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔
فرانسیسی ایوان صدر کا مزید کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے گزشتہ شام دوسری بار ایک گھنٹے تک بات چیت کی۔
دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے کچھ دیر بعد سربراہی اجلاس کا اعلان سامنے آیا۔
اس سے قبل امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ روس، یوکرین پر حملہ کرنے کے دہانے پر کھڑا ہے۔
امریکی میڈیا نے گمنام ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن کو گزشتہ ہفتے خفیہ معلومات موصول ہوئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ کریملن نے فوجیوں کو حملے کا حکم دیا ہے، اے ایف پی کے پوچھے جانے پر وائٹ ہاؤس، پینٹاگون اور محکمہ خارجہ نے ان خبروں کی تصدیق نہیں کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے، جی۔سیون کا انتباہ
ایک امریکی کمپنی کی سیٹلائٹ تصاویر میں سرحد پر روسی فوجیوں کی نئی تعیناتی بھی دکھائی گئی تھی۔
فرانسیسی صدر نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بھی بات کی، جنہوں نے فوری جنگ بندی اور مذاکرات کی بحالی پر زور دیا۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کا اپنے ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ہم امن کے عمل کو تیز کرنے کے لیے کھڑے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے فرانسیسی صدر کو یوکرینی افواج اور روسی حمایت یافتہ باغیوں کے درمیان سرحد پر نئی اشتعال انگیز گولہ باری کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
آرگنائزیشن فار سیکیورٹی اینڈ کوآپریشن ان یوروپ (او ایس سی ای) کے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس غیر مستحکم فرنٹ لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔
حالیہ دنوں میں مارٹر گولوں اور بارود کے ساتھ حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، آٹھ سال سے جاری تنازع میں 14 ہزار سے زائد جانیں جاچکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: یوکرین پر حملے کی صورت میں امریکا نے روس کو سخت پابندیوں کے متعلق خبردار کردیا
اے ایف پی کے رپورٹرز نے سرکاری افواج اور لوگانسک اور ڈونیٹسک کے مشرقی اضلاع کے کچھ حصوں پر قابض ماسکو کے حمایت یافتہ باغیوں کے درمیان فرنٹ لائن کے قریب رات کے دوران مزید بمباری کی آوازیں سنیں۔
کشیدگی میں اضافہ
اس سے قبل بیلاروس کی جانب سے اتوار کو طے شدہ مشترکہ مشقوں کے اختتام کے بعد روسی افواج کے اس کی سرزمین پر موجود رہنے کے اعلان کے بعد کشیدگی میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا۔
ماسکو نے پہلے کہا تھا کہ بیلاروس میں اس کے 30 ہزار فوجی اس کے اتحادی کے ساتھ مشقیں کر رہے ہیں جو اتوار تک ختم ہو جائیں گی، جس کے بعد روسی فوجی اپنے اڈوں کی جانب واپس چلے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا اور روس، یوکرین کے معاملے پر سخت تنازع سے بچنے کے لیے پرعزم
تاہم بیلاروس کا کہنا تھا کہ اس نے روس کے ساتھ اپنی مشترکہ سرحدوں پر بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں اور مشرقی یوکرین میں مبینہ طور پر جھڑپ کا حوالہ دیتے ہوئے روسی فوجیوں کی موجودگی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مقبوضہ علاقے
ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے یوکرین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سرحد پر روسی فوج کی بڑی تعداد کے باوجود ان کے علاقے میں حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
کیف اور مغربی دارالحکومتوں نے اس خیال کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے ماسکو پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور روسی مداخلت کا بہانہ فراہم کرنے کے لیے واقعات گڑھ رہا ہے۔
باغیوں کے علاقوں نے یوکرین کی افواج کے بارے میں بھی ایسے ہی دعوے کیے ہیں اور شہریوں کو ہمسایہ ملک روس کی سرزمین میں منتقل ہونے کا حکم دیا ہے۔