پاکستان

پیکا آرڈیننس میں ہتک عزت سے متعلق ترمیم، عدالتی حکم سے متضاد

پیکا کی دفعہ 20 کی قانونی حیثیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پہلے ہی زیر سماعت ہے۔

صدر مملکت کا جاری کردہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) ایکٹ آرڈیننس 2022، ممکنہ طور پر 'متنازع' سوشل میڈیا مواد کے خلاف مقدمات کے سیلاب کے دروازے کھول دے گا کیونکہ اس نے نہ صرف آن لائن ہتک عزت کو ناقابل ضمانت، قابل سزا جرم بنا دیا ہے بلکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کا دائر بھی وسیع کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ایک ایسے وقت میں آرڈیننس جاری کیا ہے جب پیکا کی دفعہ 20 کی قانونی حیثیت اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پہلے ہی زیر سماعت ہے، مذکورہ قانونی دفعہ ہتک عزت کو جرم قرار دیتی ہے۔

اس قانون نے اعلیٰ عدالتوں کے قانونی رائے کو غیر متعلقہ کردیا ہے جو صحافیوں اور بلاگرز کے خلاف متاثرہ افراد کے علاوہ دیگر لوگوں کی شکایات پر درج کیے گئے مقدمات میں دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح کیا تھا کہ متاثرہ شخص کے سوا کوئی اور فرد ہتک عزت کا دعویٰ دائر نہیں کرسکتا لیکن آرڈیننس کے نفاذ کے بعد کوئی بھی شخص یا ادارہ جو لازم نہیں کہ متاثرہ فریق ہو وہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر سکے گا۔

پیکا میں ترامیم کی نمایاں خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے حکومت کے اس اقدام کا پُر زور دفاع کرتے ہوئے اس بات کو اجاگر کیا کہ اس میں آن لائن ہتک عزت کے خلاف شکایت درج کرانے کا حق صرف متاثرہ شخص نہیں بلکہ کسی کو بھی دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد صرف 'میڈیا میں اصلاحات' لانا ہے جہاں غلط معلومات نے سماجی اصولوں کو بری طرح نقصان پہنچایا اور پاکستان کے سابق چیف جسٹس اور وزیراعظم عمران خان کے اہلِ خانہ سمیت بہت سے افراد کو بدنام کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایف آئی اے ایکٹ اور پیکا 2016 میں ترامیم کی تجاویز بھجوائی تھیں جنہیں پیکا آرڈیننس کے حتمی مسودے میں ضم کر دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پیکا آرڈیننس: حکومت کو صحافیوں، سیاسی جماعتوں کے شدید ردعمل کا سامنا

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں مجوزہ ترامیم ایک جیسی تھیں کیونکہ انہوں نے سزا کو 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کرنے کے علاوہ سیکشن 20 میں بیان کردہ متاثرہ شخص کے نام کی نئی تعریف کی تھی۔

ترامیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے قانونی ماہرین کی رائے تھی کہ الیکٹرانک میڈیا کے خلاف بھی دفعہ 20 لگائی جا سکتی ہے کیونکہ جناح ایڈیٹر اور آن لائن نیوز ایجنسی کے مالک محسن جمیل بیگ کے خلاف حالیہ کیس پیکا کے تحت ایک ٹاک شو میں وفاقی وزیر مراد سعید کے خلاف 'ناخوشگوار' ریمارکس دینے پر درج کیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ سیکشن 20 کے تحت شکایت کنندہ ایک فطری شخص ہوگا جبکہ آرڈیننس نے اس میں مزید زمرے شامل کیے ہیں۔

آرڈیننس نے سیکشن 20 کی سرخی میں لفظ قدرتی کو خارج کر دیا، جس کا عنوان پہلے 'فطری فرد کے وقار کے خلاف جرائم' تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی خبر پر 5 سال سزا ہوگی، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، فروغ نسیم

اس کے علاوہ ترمیم شدہ ایکٹ کے سیکشن 2 کی ترمیم کے مطابق 'شخص میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، منظم یا غیر منظم افراد کا گروہ، ادارے، تنظیمیں، اتھارٹی یا حکومت کا قائم کردہ کوئی اور ادارہ وغیرہ شامل ہے۔

قبل ازیں وزارت داخلہ نے ایف آئی اے ایکٹ میں ترمیم کی درخواست کی تھی جس میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ 'قانونی شخص بشمول ریاستی ادارے، پبلک آفس ہولڈرز، عدلیہ اور مسلح افواج' کسی انٹرنیٹ صارف کے خلاف توہین آمیز سوشل میڈیا مواد اپ لوڈ کرنے پر شکایت درج کرانے کے اہل ہیں۔

جب آرڈیننس جاری کیا گیا تو اسلام آباد ہائی کورٹ پیکا کی دفعہ 20 کی قانونی حیثیت کی جانچ کر رہی تھی۔

سوشل میڈیا قوانین پر حالیہ سماعت کے دوران عدالتی معاون ایڈووکیٹ عدنان حیدر رندھاوا نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی جس میں پیکا 2016 کے تحت سوشل میڈیا صارفین کے خلاف ہتک عزت کے قانون کی آئینی حیثیت پر بحث کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں:کابینہ نے سائبر کرائم قانون میں آرڈیننس کے تحت ترامیم کی منظوری دے دی، فواد چوہدری

رپورٹ میں کہا گیا کہ پیکا کا سیکشن 20 جو ہتک عزت کو جرم قرار دیتا ہے 'آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے'۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دفعہ 20 'بنیادی حقوق کے خلاف' ہے، ساتھ ہی یہ بھی نشاندہی کی کہ دفعہ 20 پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت درج 'معقول پابندیوں' کی خلاف ورزی کرتی ہے اور تجویز دی کہ اس قانون کو تبدیل کرنا مناسب ہے۔

مزید ایک اور ترمیم کے ذریعے آن لائن ہتک عزت ناقابل تعمیل جرم بن جائے گی، مطلب یہ ہے کہ شکایت کنندہ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے باوجود متاثرہ شخص عدالت سے باہر معاملہ طے نہیں کر سکتا۔

پیکا کی دفعہ 44 میں ایک اور ترمیم مقدمے کو نمٹانے کے لیے 6 ماہ کی ٹائم لائن طے کرتی ہے اور ہائی کورٹ کو پیکا کے تحت جج مقرر کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔

کے پی بلدیاتی انتخابات:دوسرے مرحلے کیلئے 32 ہزار سے زائد امیدواروں کےکاغذات نامزدگی جمع

لیڈی کانسٹیبل کے بغیر پولیس کا گھر پر چھاپہ غیر قانونی قرار

مفت علاج کی اسکیم سے سرکاری ہسپتالوں کی آمدنی میں اضافہ