مفت علاج کی اسکیم سے سرکاری ہسپتالوں کی آمدنی میں اضافہ
خیبر پختونخوا میں سوشل ہیلتھ پروٹیکشن انیشی ایٹو (ایس ایچ پی آئی) سے سرکاری ہسپتالوں کی آمدنی میں اس فارمولے کے نفاذ کے بعد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے تحت عملے کو صحت کارڈ پلس پر داخل مریضوں سے ملنے والی رقم میں حصہ ملتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سال 19-2018 میں سرکاری ہسپتالوں کو اس پروگرام کے تحت صوبے میں مریضوں کے علاج پر خرچ ہونے والی کُل رقم کا 11 فیصد حصہ ملا۔
نجی ہسپتالوں نے رقم کا 89 فیصد وصول کیا جبکہ سال 20-2019 میں اس پروگرام سے سرکاری ہسپتالوں کی آمدنی بڑھ کر 27 فیصد ہو گئی۔
رواں سال سرکاری ہسپتال اب تک فنڈز میں اپنا حصہ 32 فیصد تک بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ سرکاری صحت کی سہولیات کے حصے میں اضافہ جنوری 2020 میں جاری کردہ ایک نوٹی فکیشن کے نفاذ کا نتیجہ ہے جس کے تحت پروگرام کے ذریعے موصول ہونے والی رقم کے لیے 'فنڈ برقرار رکھنے اور استعمال/تقسیم فارمولا' نافذ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: جگر کی پیوندکاری کو مفت علاج اسکیم میں شامل کرنے کا حکم
ان کا کہنا تھا کہ یہ فارمولا غیر نافذ یا جزوی طور پر نافذ رہا جس کی وجہ سے صحت کارڈ کے حامل مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں آسانی سے علاج نہیں مل پارہا تھا، جبکہ نجی ہسپتالوں میں پہلے ہی ادائیگی پر مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے اور پروگرام کے ذریعے زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔
حکام نے بتایا کہ مریضوں کی دیکھ بھال اور صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے 25 فیصد فنڈز درکار تھے، 30 فیصد فنڈز ڈاکٹروں کے لیے، 20 فیصد زیر استعمال اشیا کے لیے، نرسنگ اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے لیے 15 فیصد اور انتظامی لاگت کے لیے 10 فیصد رکھے جانے کی ضرورت تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس مقصد کے لیے ہر ہسپتال میں ایک 9 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے سربراہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے لیکن اس فارمولے پر جزوی طور پر عمل کیا گیا۔
میڈیکل ٹیچنگ اداروں میں سے ایک میں موجود سینئر سرجن نے بتایا کہ حکومت نے ہسپتالوں کی خراب کارکردگی پر تشویش ظاہر کی تھی اور وہ خدمات کو بہتر بنانا اور پروگرام کے ذریعے آمدنی میں اضافہ چاہتی تھی۔
مزید پڑھیں: صحت کارڈ کے اجرا سے ہر خاندان کو 10 لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگی، وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ اب زیادہ تر ہسپتال فارمولے کے تحت فنڈز استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے عملے کو رقم میں حصہ ملنا شروع ہو گیا ہے، عملہ مریضوں کے ذریعے زیادہ آمدنی حاصل کرنا چاہتا ہے، اس لیے اب وہ مریضوں کو داخل کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نجی ہسپتالوں کی اکثریت ایک فرد کی ملکیت ہے جو کہ ریونیو کا سب سے بڑا فائدہ حاصل کرتا ہے جبکہ سرکاری سہولیات میں کئی عہدیداروں پر مشتمل کمیٹیاں ہوتی ہیں جو کم مالی فوائد کے ساتھ فیصلے کرنے پر مجبور ہوتی ہیں، اس وجہ سے حکومت نے انہیں قائل کیا کہ فارمولے کو نافذ کریں اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ماڈل پر عمل کریں۔
انہوں نے کہا کہ پروگرام سے زیادہ تر آمدنی 2 سرکاری ہسپتالوں نے حاصل کی۔
ایس ایچ پی آئی کے چیف ایگزیکٹو افسر ڈاکٹر محمد ریاض تنولی نے بتایا کہ پروگرام کے آغاز سے اب تک کُل 9 لاکھ 25 ہزار 927 مریض ہسپتالوں میں داخل ہوئے اور ان کے علاج پر 22 کھرب 589 ارب روپے خرچ کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: نجی ہسپتالوں نے صحت کارڈ کے ذریعے اربوں روپے کمالیے
انہوں نے کہا کہ نجی ہسپتالوں نے 6 لاکھ 23 ہزار 267 مریضوں کو داخل کیا جبکہ 3 لاکھ 2 ہزار 660 مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں میں داخل کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پروگرام کے ذریعے نجی ہسپتالوں نے 15 کھرب 813 ارب روپے اور سرکاری ہسپتالوں نے 6 کھرب 776 ارب روپے کمائے۔
ڈاکٹر محمد ریاض تنولی نے کہا کہ وزیر صحت تیمور خان جھگڑا (جو کہ ایس ایچ پی آئی کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے چیئرمین ہیں) رواں مالی سال کے اختتام تک سرکاری ہسپتالوں کی آمدنی کو 50 فیصد تک بڑھانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں موجود تمام 74 لاکھ خاندان 700 سے زائد ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولیات کے اہل ہیں جن میں خیبر پختونخوا کے 185 ہسپتال شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا یونیورسل ہیلتھ کوریج فراہم کرنے والا پہلا صوبہ، وزیر اعظم کی مبارکباد
ان کا کہنا تھا کہ حکومت صحت عامہ کی سہولیات کو ایس ایچ پی آئی سے زیادہ رقم حاصل کرنے اور ان کی خدمات کو مزید اپ گریڈ کرنے کے قابل بنانا چاہتی ہے۔
چیف ایگزیکٹو افسر کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں کہ لوگوں کو معیاری خدمات ملیں۔
انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر کے ہسپتال، خاص طور پر طبی تعلیم دینے والے ادارے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹروں اور معاون عملے سے لیس ہیں، اس لیے وہ مریضوں کو فوری اور اعلیٰ خصوصی صحت کی خدمات فراہم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔