نقطہ نظر

’گلیڈی ایٹرز کو صرف جیت کی نہیں معجزے کی ضرورت تھی‘

پچھلے سیزن میں جب ایونٹ متحدہ عرب امارات منتقل ہوا تھا، تب ملتان سلطانز نے جو فارم حاصل کی تھی، وہ اب تک برقرار ہے۔

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 7 اب اختتامی مراحل میں پہنچ چکا ہے۔ صرف ایک گروپ میچ باقی ہے جس کے بعد پلے آف مرحلے کی باری ہے اور پھر سال بھر کا انتظار۔

کراچی کنگز کے شائقین کے لیے یہ انتظار کچھ اور بھی طویل ہوگا کہ ان کی ٹیم اس سال فتح کا نام ہی بھولی رہی۔ لاہور قلندرز کو ایک میچ میں شکست دے کر کم از کم کراچی کنگز ٹرپل ہیٹ ٹرک اور ایک طرح سے کلین سوئپ سے بچ گئی لیکن کراچی کنگز کے لیے سیزن کا اختتام ایک اور شکست کے ساتھ ہی ہوا۔

کراچی کنگز تو بہت پہلے ہی پلے آف مرحلے کی دوڑ سے باہر ہوچکے تھے لیکن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم پے در پے شکستوں کے باوجود تکنیکی طور پر ابھی تک دوڑ میں شامل تھی۔

کل کھیلے جانے والے دونوں میچوں کے نتائج میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو معجزے درکار تھے۔ ان دونوں میچوں میں نتائج تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی خواہش کے مطابق آئے لیکن معجزہ نہ ہوسکا اور یوں کراچی کنگز کے بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بھی ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔


کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بمقابلہ کراچی کنگز


کراچی کنگز کے خلاف میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو ایک بڑی جیت درکار تھی، اسی وجہ سے کوئٹہ کی جانب سے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا گیا لیکن ول اسمیڈ جلد ہی جیسن روئے کا ساتھ چھوڑ گئے۔

ان کی جگہ جیمز ونس آئے جو اس بار پی ایس ایل میں کچھ خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے لیکن مسلسل کھیلتے رہے جبکہ احسن علی جو شروع میں بہترین کارکردگی دکھا چکے تھے، وہ ایک، دو ناکامیوں کے بعد ہی باہر بٹھا دیے گئے تھے۔

اس میچ میں جیسن روئے تیز تو نہیں کھیل پائے لیکن ایک بڑی اننگ ضرور کھیل گئے۔ روئے کا ساتھ ونس اور افتخار نے ضرور دیا لیکن زیادہ تیز نہ کھیل پائے اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم 20 اوورز میں 166 رنز ہی بنا سکی۔

کراچی کنگز کی جانب سے روحیل نذیر ٹیم میں تو موجود تھے لیکن وکٹ کیپنگ جو کلارک کر رہے تھے جن کے ہاتھوں سے کئی بار گیند پھسلتی رہی۔ ایک اسٹمپ کا موقع بھی ضائع کیا اور بائی کے بھی کئی رنز دیے۔

کلارک اس سال بگ بیش لیگ میں 150 سے زائد کے اسٹرائیک ریٹ سے 400 سے زائد رنز بناکر پی ایس ایل میں پہنچے تھے۔ کراچی کنگز کو ان سے بہت سی توقعات تھیں لیکن کلارک نے بھی بابر اعظم، شرجیل خان، محمد نبی اور دیگر بیٹسمینوں کی طرح کراچی کنگز کے چاہنے والوں کو شدید مایوس ہی کیا۔

166 رنز کے تعاقب میں کم از کم کراچی کنگز کی اوپننگ جوڑی کے وکٹ پر رہتے تو ایسا ہی لگ رہا تھا کہ اس ہدف کا تعاقب کچھ مشکل نہیں ہوگا۔ جو کلارک اس سیزن میں کم ہی چلے ہیں مگر اس اننگ میں انہوں نے بابر اعظم کے ساتھ 87 رنز کی شراکت داری قائم کی۔

اگرچہ اس میچ میں بھی بابر اعظم تیز رنز بنانے میں ناکام رہے مگر جب وہ آؤٹ ہوئے تو میچ پر کراچی کنگز کی گرفت کافی مضبوط تھی۔ مگر پھر اچانک وکٹیں گرنے کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور مطلوبہ رن ریٹ تیزی سے بڑھتا چلا گیا۔ یوں کراچی کنگز کی ٹیم ایک بار پھر جیتا ہوا میچ ہار گئی۔ نسیم شاہ نے کراچی کے کسی بیٹسمین کو کھل کر نہ کھیلنے دیا تو خرم شہزاد 4 وکٹیں لے گئے۔

اس پورے سیزن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا ٹیم کمبینیشن مسائل کا شکار رہا۔ جیسن روئے کے آنے سے لگا کہ شاید کچھ تبدیلی آئے گی لیکن پھر کچھ کھلاڑیوں کے زخمی ہونے اور کچھ کے ٹورنامنٹ چھوڑ جانے کی وجہ سے کارکردگی اوپر نیچے ہی ہوتی رہی۔ یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ کوئٹہ کی ٹیم پہلے مرحلے میں ہی باہر ہوگئی ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے منتظمین کو بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ کیا غلط ہو رہا ہے کہ پہلے 4 سیزن میں اتنی تگڑی رہنے والی ٹیم کا یہ حال ہو رہا ہے۔

انہیں چاہیے کہ کپتانی اور کوچنگ اسٹاف میں کچھ تبدیلیاں کریں اور اینالسٹس اور کوچنگ اسٹاف ڈومیسٹک کھلاڑیوں پر نظر رکھیں کیونکہ غیر ملکی کھلاڑیوں پر آپ کا اتنا کنٹرول نہیں رہتا۔ پی ایس ایل کے دوران مختلف انٹرنیشنل دورے جاری رہتے ہیں تو ضروری نہیں کہ جن غیر ملکی کھلاڑیوں پر فرنچائز کی نظر ہو انہیں حاصل کرنا ممکن بھی ہو۔ لیکن ملکی کھلاڑی اگر فٹ رہیں تو تمام میچوں کے لیے دستیاب ہوتے ہیں اور ٹیم کی کارکردگی میں مناسب کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ گلیڈی ایٹرز کے لیے کھیل کی اپروچ میں تبدیلی لانا بھی لازم ہوچکا ہے۔ ٹی20 کرکٹ میں فتح کے لیے جارحانہ کھیل لازمی ہے اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے اس کی کمی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ایمرجنگ کھلاڑیوں کو خوب سوچ بچار کے بعد منتخب کیا جانا چاہیے اور پھر ان کا بہترین استعمال بھی کیا جائے۔ اب جہاں جہاں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز لکھا ہے وہاں وہاں کراچی کنگز پڑھ لیں تو کچھ یہی مسائل وہاں بھی ہیں اور کچھ یہی حل ان کے مسائل کا بھی بنتا ہے۔


ملتان سلطانز بمقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ


پوائنٹس ٹیبل پر سرِفہرست ملتان سلطانز کی طرح اسلام آباد یونائیٹڈ نے بھی اس سیزن کا آغاز بہترین انداز سے کیا تھا۔ ملتان سلطانز کی طرح انہیں مسلسل فتوحات تو حاصل نہیں ہوئیں لیکن انہوں نے جارحانہ کرکٹ کھیلی۔ ایلکس ہیلز اور پال اسٹرلنگ اسلام آباد یونائیٹڈ کو بہترین آغاز فراہم کر رہے تھے تو شاداب وکٹوں کی قطار لگانے کے ساتھ ساتھ مسلسل رنز بھی بنا رہے تھے۔ ان تینوں کے ساتھ باقی کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی کافی عمدہ تھی اور لگ یہی رہا تھا کہ اسلام آباد یونائیٹڈ پوائنٹس ٹیبل پر پہلی یا دوسری پوزیشن پر رہے گی۔

مگر پھر پال اسٹرلنگ کو آئرلینڈ کی جانب سے کھیلنے کے لیے جانا پڑا تو ایلکس ہیلز بائیو سیکیور ببل سے اتنا اکتا گئے کہ پی ایس ایل سے ہی دستبردار ہوگئے۔ کالن منرو ان فٹ ہوئے تو شاداب خان اور ذیشان ضمیر بھی ان کے پیچھے پیچھے ہی ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے۔

حسن علی کا نام ٹاس سے پہلے ٹیم شیٹ پر تھا لیکن ٹاس کے فوراً بعد انہیں انجری کی وجہ سے باہر بٹھانا پڑا اور یوں چند ہی دنوں میں ایک مضبوط ٹیم بکھر کر رہ گئی۔ ابتدائی میچوں میں اچھی کارکردگی کی بدولت اسلام آباد یونائیٹڈ نے 8 پوائنٹس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جو اچھا نیٹ رن ریٹ برقرار رکھا تھا وہ مسلسل شکستوں کے باوجود ان کے کام آیا اور ٹیم پلے آف مرحلے تک پہنچ ہی گئی۔

ملتان سلطانز کے خلاف کل کے میچ میں تو اسلام آباد یونائیٹڈ کی بیٹنگ بُری طرح ناکام ہوگئی۔ نہ نئے کھلاڑی محمد حریرہ اور ناصر نواز کام آئے اور نہ ہی پہلے سے کھیلتے آصف علی اور اعظم خان کچھ کرسکے یوں ملتان سلطانز کے سامنے صرف 106 رنز کا ہدف ہی رکھا جاسکا۔

یہ ہدف ملتان کی ان فارم بیٹنگ لائن کے لیے کچھ بھی نہیں تھا لیکن شان مسعود کی وکٹ جلد گرنے کے بعد جب بیٹنگ آرڈر تبدیل کیا گیا تو ایک بعد ایک 3 وکٹیں گر گئیں اور لگا کہ شاید ملتان سلطانز کو گروپ مرحلے کی دوسری شکست ہوجائے۔

لیکن کریز پر ابھی ملتان کے سلطان یعنی کپتان محمد رضوان موجود تھے۔ رضوان کو ڈیوڈ ویلے کا ساتھ ملا تو دونوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ دونوں نے تیز کھیلنے کی کوشش ہی نہیں کی اور بہت سکون سے ہدف کی جانب سفر جاری رکھا یوں ملتان سلطانز 10 میں سے 9 میچ جیت کر پلے آف مرحلے میں پہنچ گئی۔

پچھلے سیزن میں جب ایونٹ متحدہ عرب امارات منتقل ہوا تھا، تب ملتان سلطانز نے جو فارم حاصل کی تھی، وہ اب تک برقرار ہے۔ اس ٹیم نے اس وقت جیت کا ایک ایسا سفر شروع کیا تھا کہ چیمپیئن بن کر ہی دم لیا تھا۔

اس سال تو پہلے میچ سے ہی اس کی کارکردگی کچھ ایسی تھی کہ سوائے لاہور قلندرز کے کوئی بھی ٹیم ملتان سلطانز کو شکست نہ دے سکی۔

اب زیادہ امکان یہی ہے کہ دونوں ٹیمیں کوالیفائر میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گی اور ایلیمینیٹر میں پشاور زلمی کا مقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ سے ہوگا۔ پشاور زلمی کو پوائنٹس ٹیبل پر لاہور قلندرز سے اوپر جانے اور کوالیفائر کھیلنے کے لیے آخری گروپ میچ میں لاہور قلندرز کو ایک بہت بڑی شکست سے دوچار کرنا ہوگا۔

کیا ایسا ہوتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ آج ہی ہوجائے گا۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔