کابینہ نے سائبر کرائم قانون میں آرڈیننس کے تحت ترامیم کی منظوری دے دی، فواد چوہدری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے تصدیق کی ہے کہ وفاقی کابینہ پریونشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 میں صدارتی آرڈیننس کے تحت ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔
ڈان نیوز کو فواد چوہدری نے بتایا کہ قانون میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی منظوری سرکولیشن کے ذریعے حاصل کرلی گئی ہے۔
مزیدپڑھیں: صحافیوں کے تحفظ کا بل، نیب ترمیمی آرڈیننس سینیٹ سے بھی منظور، اپوزیشن کا احتجاج
وزیراطلاعات نے کہا کہ ترامیم کے تحت سوشل میڈیا پر کسی کو بدنام کرنا قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے گا اور عدالتیں پیکا کے تحت درج مقدمات کے فیصلے 6 ماہ میں دیں گی۔
فواد چوہدری نے اس سے قبل ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ‘وفاقی کابینہ کو دو اہم قانون منظوری کے لیے بھیجے گئے ہیں، پہلے قانون کے تحت پارلیمنٹیرینز کو انتخابی مہم میں حصہ لینےکی اجازت دی گئی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘دوسرے قانون کے تحت سوشل میڈیا پر لوگوں کی عزت اچھالنے کو قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا ہے، عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ فیصلہ 6ماہ میں کیا جائے’۔
وفاقی کابینہ کو جاری کیے گئے سرکولیشن میں کہا گیا تھا کہ اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 ون کے تحت تمام شہریوں کی برابری اور بنیادی حقوق کے طور پر قانون کے برابر تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔
سرکیولیشن میں کہا گیا کہ ابھرتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے قانون ڈویژن نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2016 میں مخصوص ترامیم کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے اور اس کو آرڈیننس کے تحت جاری کیا جائے گا کیونکہ اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وفاقی کابینہ نے صحافیوں کے تحفظ، جبری گمشدگیوں سے متعلق بلوں کی منظوری دے دی
بتایا گیا کہ وزیراعظم نے سمری سرکولیشن کے ذریعے وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی اجازت دی اور وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے مذکورہ سمری وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کی منظوری دی۔
یاد رہے کہ پیکا 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سےمنظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔
مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیرضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔
قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کے حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔
نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا۔
ٹیکنالوجی کی کمپنیوں نے بھی پاکستان میں اپنی خدمات ختم کرنے کی دھمکی دی اور کہا کہ اگر قواعد میں تبدیلی نہیں کی گئی تو انہیں اپنا کام جاری رکھنا مشکل ہوگا۔
بعد ازاں اس قانون کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چینلج کردیا گیا اور پہلی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ حکومت قواعد پر نظرثانی کے لیے تیار ہے۔
مارچ 2021 میں وزیراعظم عمران خان نے متنازع سوشل میڈیا قواعد پر نظرثانی کے لیے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دے دی۔
مذکورہ کمیٹی نے اگست تک قواعد تیار کرلیے اور 23 ستمبر کو کابینہ کمیٹی برائے قانون سےمنظور کروالیا گیا۔
وفاقی کابینہ نے 29 ستمبر کو ڈیجیٹل میڈیا رولز میں ترامیم کی منظوری دے دی اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن نے 14 نومبر کو نوٹیفائی کردیا تھا۔