پاکستان

اٹارنی جنرل کا طبی ریکارڈ کی تصدیق کے لیے نواز شریف کے ڈاکٹر کو خط

اٹارنی جنرل نے کنسلٹنٹ کارڈیوتھوراسک سرجن ڈیوڈ آر لارنس سے حکومت کے نامزدہ ڈاکٹرز کو ملاقات کا وقت اور مقام بتانے کی درخواست کی۔

ملکی سیاسی قانونی لڑائی میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، اٹارنی جنرل پاکستان (اے جی پی) نے لندن میں نواز شریف کے کارڈیو تھوراسک کنسلٹنٹ کو خط لکھا ہے جس میں سابق وزیر اعظم کے میڈیکل ریکارڈ کی تصدیق کے لیے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے لیے ملاقات کا وقت طلب کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل کے دفتر نے کنسلٹنٹ کارڈیوتھوراسک سرجن ڈیوڈ آر لارنس سے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تاریخ، وقت اور مقام بتادیں تاکہ حکومت کے نامزد کردہ ڈاکٹر ان سے مل سکیں اور طبی ریکارڈ کی جانچ کر سکیں۔

نومبر 2019 سے برطانیہ میں مقیم پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد کی وطن واپسی کے لیے جاری کوششوں میں حالیہ ہفتوں کو دوران اٹارنی جنرل کے دفتر کی جانب سے جاری کیا گیا یہ چوتھا خط ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف کی نئی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع، سفر سے گریز کی ہدایت

نئے خط میں 22 فروری سے 13 مارچ کے درمیان ملاقات کا وقت طلب کرتے ہوئے درخواست کی گئی ہے کہ ملاقات یا طبی ریکارڈ کی جانچ پڑتال کا اہتمام وہ اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی تاریخ پر کریں اور ملاقات کی تاریخ سے کم از کم 4 روز قبل حکومت پاکستان کو آگاہ کریں۔

اس سے قبل بھی 24 جنوری کو اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ایک خط میں سخت الفاظ میں متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ 10 دن میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی طبی رپورٹیں فراہم نہیں کرسکتے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے گی۔اس کے علاوہ اس سے قبل اٹارنی جنرل کے دفتر نے سابق وزیراعظم کے میڈیکل ریکارڈ اور ان کی وطن واپسی سے متعلق پنجاب کے سیکریٹری داخلہ ظفر نصر اللہ خان کو دو خط بھیجے تھے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کو لکھے گئے نئے خط میں اس بات پر زور دیا گیا کہ میڈیکل ریکارڈ کی جانچ سے متعلق اقدام شریف برادران کے دیے گئے حلفیہ بیانات اور 16 نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کے اس حکم نامے کی روشنی میں کی جارہی ہے جس میں عدالت نے نواز شریف کو علاج کی غرض سے 4 ہفتوں کے لیے عبوری انتظام کے طور پر بیرون ملک ایک مرتبہ سفر کی اجازت دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ انہیں ڈاکٹروں کی جانب سے سفر کی اجازت ملنے کی صورت میں پاکستان واپس آنا تھا۔

مزید پڑھیں:نواز شریف کی طبیعت بہتر ہے، انہیں مزید احتیاط کی ضرورت نہیں، میڈیکل بورڈ

خط میں اس بات کو بھی دہرایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے 14 جنوری 2022 کو ایک خصوصی طبی بورڈ تشکیل دیا اور 17 جنوری کو ان کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے سے پہلے اپنی 29 صفحات پر مشتمل دستاویز میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ڈاکٹر نے نواز شریف کی موجودہ طبی صورتحال سے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔

نئے خط میں اس بات کا بھی دوبارہ ذکر کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر نے نواز شریف کے خون کی رپورٹیں، امیجنگ کے نتائج اور اب تک فراہم کی گئی کسی بھی طبی امداد سے متعلق رپورٹ فراہم نہیں کی۔

خط میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے قائم میڈیکل بورڈ نے یہ رائے دی تھی کہ ان دستیاب معلومات کی روشنی میں وہ نواز شریف کی موجودہ جسمانی حالت اور ان کی سفر کرنے کی صلاحیت کے بارے میں کوئی ٹھوس مشورہ یا قابل غور رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف جعلی میڈیکل رپورٹ پر لندن میں قیام کرنا چاہتے ہیں، شیخ رشید

حکومت کی تشکیل دیے گئے میڈیکل بورڈ نے ڈاکٹر فیاض شال کی دستخط کردہ اور 28 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تین صفحات پر مشتمل رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ میڈیکل رپورٹ نہیں بلکہ ایک جانچ پڑتال کی رپورٹ ہے جس کو روشنی میں بورڈ نواز کی موجودہ جسمانی حالت اور ان کی سفر کرنے کی صلاحیت کے بارے میںکوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتا۔

اٹارنی جنرل کے دفتر نے اپنے خط میں کہا ہے کہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف ابتدائی طور پر ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کی زیر نگرانی تھے جب کہ ڈاکٹر فیاض شال نے اپنے لندن کے دورے کے دوران یا اس کے بعد طبی جانچ کی اپنی رپورٹ لکھی۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام کلینیکل ٹیسٹ، لیب رپورٹس، جسمانی معائنہ وغیرہ اور اگر طبی امداد بھی فراہم کی بھی گئی ہے تو یہ تمام معاملات برطانیہ میں ہی کرائے گئے ہوں گے۔

خط میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے نامزد کیے گئے ڈاکٹرز شریف برادران کی جانب سے دیے گئے حلفیہ بیانات اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے اطلاق کے لیے سابق وزیراعظم کی صحت کی حالت کی تصدیق کے لیے ان کے ڈاکٹر سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔

خط میں وضاحت کی گئی ہے کہ جیسا کہ میڈیکل بورڈ کے مشاہدے کے مطابق ڈاکٹروں کی ٹیم کو ان کی موجودہ تشخیص، ہیماٹولوجی، خون کی رپورٹس، امیجنگ نتائج اور اب تک فراہم کی طبی امداد سمیت تمام متعلقہ میڈیکل ریکارڈ کی جانچ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف کی جعلی میڈیکل رپورٹ ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی ہے، فواد چوہدری

اٹارنی جنرل کے دفتر نے اپنے خط میں اس بات کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ تمام میڈیکل رپورٹس وغیرہ کی جانچ کیے بغیر ڈاکٹر نواز شریف کی صحت کی موجود صورتحال اور ان کی پاکستان واپسی کی صلاحیت کے بارے میں کوئی طبی رائے قائم نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس کی تصدیق یا توثیق کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کو لکھے گئے نئے خط کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ کا حکم، ڈاکٹر فیاض شال کا خط اور 17 جنوری اور 7 فروری کی میڈیکل بورڈ کی رپورٹس بھی منسلک کی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ ایک علیحدہ خط سیکریٹری خارجہ کو بھی بھیجا گیا ہے جس میں ان سے خط کو جلد از جلد جلد کنسلٹنٹ سرجن کے حوالے انتظامات کرنے کی درخواست کی گئی ہے، مزید یہ بھی کیا گیا کہ ہائی کمیشن ملاقات اور میڈیکل ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے لیے ایک فوکل پرسن بھی نامزد کرے۔

’کراچی کنگز کی ناکامیوں کے ذمہ دار صرف کھلاڑی نہیں بلکہ کوچنگ اسٹاف بھی ہے‘

امریکا کے پاس پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، ٹام ویسٹ

شادی کے بغیر زندگی گزارنے کی پوسٹ پر محسن عباس پر تنقید