سائنس و ٹیکنالوجی

صارفین کی ٹریکنگ کا الزام، فیس بُک 9کروڑ ڈالر کے تصفیے پر رضامند

سوشل میڈیا ویب سائٹ پر الزام تھا کہ لاگ آؤٹ ہونے کے بعد بھی صارفین کی انٹرنیٹ سرگرمیوں کو ٹریک کیا جاتا ہے۔

فیس بک نے ایک دہائی پرانے پرائیویسی کے مقدمے کو حل کرنے کے لیے 9کروڑ ڈالر ادا کرنے پر اتفاق کیا ہے جہاں سوشل میڈیا ویب سائٹ پر الزام تھا کہ لاگ آؤٹ ہونے کے بعد بھی صارفین کی انٹرنیٹ سرگرمیوں کو ٹریک کیا جاتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ایک مجوزہ ابتدائی تصفیہ پیر کی رات کیلیفورنیا کے سان ہوزے میں امریکی ضلعی عدالت میں دائر کیا گیا اور اس کے لیے جج کی منظوری درکار ہے، اس معاہدے کے تحت فیس بک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ غلط طریقے سے جمع کیے گئے ڈیٹا کو حذف کرے۔

مزید پڑھیں: فیس بک کی 15 ٹپس جو اکثر افراد کو معلوم نہیں

صارفین نے میٹا پلیٹ فارم یونٹ پر الزام لگایا کہ وہ وفاقی اور ریاستی رازداری اور وائر ٹیپنگ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے پلگ انز کو کوکیز کو اسٹور کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

فیس بک نے مبینہ طور پر صارفین کی براؤزنگ ہسٹری کو پروفائلز میں مرتب کیا جس کو انہوں نے اشتہار دینے والوں کو فروخت کیا۔

تصفیہ کے کاغذات کے مطابق کمپنی نے کہا کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا لیکن مقدمے کے اخراجات اور خطرات سے بچنے کے لیے تصفیہ پر رضامندی ظاہر کی۔

میٹا کے ترجمان ڈریو پوساٹیری نے ایک ای میل میں کہا کہ تصفیہ کرنا ہماری کمیونٹی اور ہمارے شیئر ہولڈرز کے بہترین مفاد میں ہے اور ہمیں اس مسئلے سے آگے بڑھنے میں خوشی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک کی نئے نام سے خود کو دوبارہ متعارف کروانے کی منصوبہ بندی

یہ تصفیہ امریکا میں فیس بک کے ان صارفین کا احاطہ کرتا ہے جنہوں نے 22 اپریل 2010 اور 26 ستمبر 2011 کے درمیان فیس بک کے علاوہ دیگر ویب سائٹس کا دورہ کیا جو فیس بک کے لائک بٹن کو ظاہر کرتی تھیں۔

مدعیوں کے وکلا سیٹلمنٹ فنڈ سے 2کروڑ 61لاکھ ڈالر یا 29 فیصد تک کی قانونی فیس حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ مقدمہ فروری 2012 میں شروع ہوا تھا اور گزرے سالوں میں فیس بک کو رازداری کی دیگر شکایات کا سامنا رہا ہے۔

جولائی 2019 میں انہوں نے اس سلسلے میں امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن کے تصفیے میں رازداری کے تحفظات کو تقویت دینے پر اتفاق کیا جس میں 5 ارب ڈالر جرمانہ بھی شامل تھا۔

مزید پڑھیں: فیس بُک آپکی پوسٹس کی چھان بین کرے گا

پیر کو ٹیکساس کے اٹارنی جنرل نے میٹا پر مقدمہ دائر کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ کمپنی نے صارفین کی اجازت کے بغیر چہرے کی شناخت کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔