دنیا

افغانستان کے فنڈز فی الحال جاری نہیں کیے جا سکتے، امریکا

اس معاملے میں عدالتی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھنا ہے اس لیے اس رقم کا کوئی بھی حصہ منتقل کرنے میں کئی ماہ لگیں گے، امریکی عہدیدار

ایک سینئر امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اب بھی افغانستان کے لیے مختص کیے گئے 7 بلین ڈالر کا نصف حصہ طویل عدالتی کارروائی کے سبب جاری نہیں کر سکتی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس فنڈ کا نصف ایک ٹرسٹ فنڈ میں جائے گا جو کہ ان کی انتظامیہ افغانستان میں انسانی امداد کے لیے قائم کرے گی، جبکہ فنڈ کا باقی نصف حصہ امریکا میں 9/11 حملوں کے متاثرین کو بطور معاوضہ دیا جائے گا۔

تاہم ایگزیکٹو آرڈر میں یہ بھی کہا گیا کہ انتظامیہ کو ایسا کرنے کے لیے عدالتی اجازت درکار ہے کیونکہ امریکی وفاقی عدالت متاثرین کے اہل خانہ کی جانب سے اس درخواست پر پہلے ہی غور کر رہی ہے جس میں معاوضے کے لیے مکمل رقم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بائیڈن کا افغانستان کے منجمد فنڈز سے 7 ارب ڈالر براہ راست عوام پر خرچ کرنے کا منصوبہ

ایگزیکٹو آرڈر سے متعلق صحافیوں کو ایک حالیہ بریفنگ میں بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بھی اس قانونی مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عدالتی طریقہ کار کے مطابق پیروی کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں عدالتی طریقہ کار کے مطابق آگے بڑھنا ہے اس لیے ہمیں اس رقم کا کوئی بھی حصہ منتقل کرنے میں کم از کم کئی مہینے لگیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے رقم کے تخمینے اور اس کے استعمال سے قطع نظر یہ رقم اگلے چند مہینوں میں دستیاب نہیں ہوسکے گی۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے 60 کروڑ ڈالر کا مطالبہ

نیویارک ٹائمز نے اس فیصلے سے متعلق اپنی رپورٹ میں ایک اور مسئلے پر روشنی ڈالی ہے جس کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ مسئلہ معاملات کو مزید پیچیدہ کر رہا ہے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ امریکا طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتا، یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا افغان مرکزی بینک کے فنڈز واقعی طالبان کی ملکیت ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اندرون ملک سیاسی دباؤ کے سبب بائیڈن انتظامیہ نے اس معاملے کی سماعت کرنے والی عدالت کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ انتظامیہ کا یہ خیال ہے کہ بینک کی رقم کافی حد تک طالبان کی ملکیت ہے کیونکہ اب وہ اس ملک اور اس کے اداروں کو کنٹرول کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اقوامِ متحدہ نے افغانستان کی امداد جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے، سہیل شاہین

یہ سوال امریکی ایڈووکیسی گروپ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) ایشیا کے ڈائریکٹر جان سیفٹن کی ایک اور بریفنگ میں بھی اٹھایا گیا۔

انہوں نے ایچ آر ڈبلیو کی ایک رپورٹ میں لکھا کہ افغان شہریوں کی انسانی امداد کے لیے ساڑھے 3 ارب ڈالر جاری کرنے کی ہدایت بظاہر سخاوت کا عظیم مظاہرہ لگتی ہے، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دراصل مکمل 7 ارب ڈالر قانونی طور پر افغان عوام کی ہی ملکیت تھے۔

ایک اور سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ کسی ملک کی دولت کو کسی ایسی اکائی کا قرض ادا کرنے کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے جسے وہاں کی خود مختار حکومت تسلیم نہیں کرتی۔

مزید پڑھیں: جرمنی نے افغانستان میں ‘بدترین انسانی بحران’ سےخبردار کردیا

انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ ایک انتہائی عجیب مثال قائم کرے گا کہ ان فنڈز کو 2 حصوں میں تقسیم کرکے اسے ان چیزوں کے لیے استعمال کیا جائے جس کے لیے افغان عوام شاید راضی نہ ہوں۔

ایچ آر ڈبلیو کے ایڈوکیسی ڈائریکٹر نے دیگر مسائل پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب بائیڈن انتظامیہ افغانستان کو رقم بھیجنا شروع کرے گی تو انہوں ان مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اگرچہ امریکا نے یہ رقم ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ کو دے دی ہے لیکن افغانستان کے بینکنگ سیکٹر پر عائد پابندیاں ملک کے اندر رقم بھیجنا یا خرچ کرنا عملی طور پر ناممکن بنا دیتی ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو نے زور دیا کہ اس کی بجائے امریکا اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی امریکا اور ورلڈ بینک کو افغانستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اقتصادی پابندیوں میں نرمی کرنے پر راضی کرنے کی کوششوں پر توجہ دے۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 6 سے 12 روپے اضافے کا امکان

پی ایس ایل7: گلیڈی ایٹرز مزید دو کھلاڑیوں کی خدمات سے محروم

منجمد افغان اثاثوں کی 9/11متاثرین میں تقسیم افغان عوام پر ظلم ہے، حامد کرزئی