'خبردار! میں اپنے شوہر کو بتادوں گی'
'ایک کپ چائے کا ملے گا؟'، اس کے کاندھے پر کسی نے پیچھے سے ہاتھ رکھا، آواز کا سننا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے چائے کی ٹرے گر پڑی اور چھن کی آواز کے ساتھ سارے برتن فرش پر گر گئے، چائے فرش کو داغدار کرچکی تھی اور شیشے کے کپ اب کرچیوں کی شکل میں زمین پر بکھرے تھے۔
'چائے ہی تو مانگی تھی بھابھی صرف'، وہ مکروہ انداز میں مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا اور وہ گھٹے گھٹے سے انداز میں روتی ہوئی فرش کو پوچے سے رگڑنے لگی اور چائے کا پانی دوبارہ چولہے پر رکھا۔ دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تو اس نے سکھ کا سانس لیا اور جلدی جلدی توس سینک کر اور انڈا فرائی کرکے ٹیبل پر رکھا اور احمد کو ناشتے کے لیے بلانے چل دی۔
'کہاں رہ گئی تھیں تم؟ گھڑی دیکھی ہے؟ لیٹ کروا دیتی ہو روزانہ، ایک ناشتہ تک تو تم ڈھنگ سے بنا نہیں سکتی۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر تمہارا مسئلہ کیا ہے۔ ہر وقت نہ جانے کیا چھایا رہتا ہے حواسوں پر، کون سے بھوت ناچتے ہیں تمہارے سامنے جو تمہارے ہاتھ کپکپاتے رہتے ہیں۔ خدا جانے کونسا نفسیاتی عارضہ لاحق ہوا ہے۔ پہلے تو تم ایسی نہیں تھیں'، احمد بکتا جھکتا ناشتہ کرنے گیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی، آنسو رخساروں کو بھگوتے جارہے تھے۔
اسے اس کیفیت میں دیکھ کر احمد کا دل پگھل گیا، 'شاید میں کچھ زیادہ ہی سنا گیا۔ میں جارہا ہوں، تم کچھ دیر آرام کرلو۔ کیا مسئلہ ہے تم مجھے کیوں نہیں بتاتی ہو'، احمد نے نرمی سے ارم کے ہاتھ تھامے، 'اگر کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ، مجھ سے کبھی تو ڈسکس کرو کہ کیا شے تمہیں یوں بے چین رکھتی ہے۔ میں شام کو آؤں گا تو شاپنگ پر چلیں گے، شاید کافی دن سے تمہارا ماحول تبدیل نہیں ہوا تو تم تھک گئی ہوگی، خدا حافظ'، وہ گاڑی کی چابیاں اٹھاتا باہر نکل گیا۔
اس کے جانے کے بعد ارم نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور موبائل اٹھا کر اپنی رعنا کا نمبر ملایا اور اسے آج کی روداد سنانے کے بعد اس نے احمد کے بیزار رویے سے متعلق بتایا۔
'ارم دیکھو تم اپنی زندگی اور گھر کو تباہ کررہی ہو، احمد بھی کتنا برداشت کرے گا؟ میری بات غور سے سنو!'، رعنا نے سخت لہجے میں اسے مخاطب کیا۔
'تم موقع دیکھ کر احمد کو تمام صورتحال بتاؤ، اس سے پہلے کہ تم پر ہی کوئی الزام دھر دیا جائے۔ احمد کو تمام حقیقت سے آگاہ کرو، اس کے بھائی کی تمام اوچھی حرکتیں اسے بتاؤ'، رعنا نے اپنی بات بڑھائی۔
'رعنا کیا احمد میری بات کا یقین کریں گے؟ کیا وہ اپنے بھائی کی اصلیت سہہ پائیں گے؟ وہ کبھی نہیں مانیں گے کہ راحیل کا اصل چہرہ کس قدر مکروہ ہے، وہ ان کے پیچھے مجھے کس انداز میں ہراساں کرتا ہے، آج بھی اس نے پیچھے سے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے پریشان کرنے کی کوشش کی۔ کتنا خوف محسوس ہوتا ہے مجھے اس کی موجودگی سے، وہ تو رشتوں کا تقدس بھی نہیں سمجھ پارہا۔ میری زندگی کا سب سے بڑا روگ بن گیا ہے۔ خیر میں کرتی ہوں کوشش احمد کو سب سچائی بتانے کی، ہمت نہیں مجھ میں لیکن اب ایسے بھی زندگی نہیں گزار سکتی'، ارم نے اپنا خوف کُھل کر بیان کیا۔
'جب پہلی بار راحیل نے یہ حرکت کی تو تمہیں اسی وقت احمد کو آگاہ کرنا چاہیے تھا، خیر اب بھی بتادو تو سکون میں آجاؤ گی۔ اپنا خیال رکھنا خدا حافظ'، رعنا نے اپنی بات مکمل کی۔
فون بند ہوا تو ارم بھی کچھ مطمئن ہوئی اور احمد کو سچائی سے آگاہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے سر درد کی گولی تلاش کرنے لگی۔
ہونے کو تو ارم کی کہانی میں کچھ نیا نہیں، ایک ارم ہی کیا ناجانے کتنی ہی خواتین ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام کے بوجھ تلے ایسے رشتے جھیل رہی ہیں جن میں احترام نہیں بلکہ ہوس نمایاں ہے۔ ہمارے سامنے ناجانے کتنی ایسی عورتیں ہیں جو گھر میں ہی ہراسگی کا سامنا کرتی ہیں، لیکن کسی سے کچھ کہہ نہیں پاتیں، سمجھا نہیں پاتیں اور اندر ہی اندر گھلتی رہتی ہیں۔
ایک ایسی ہی خاتون سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ شادی ہوکر بھرے پرے خاندان میں گئیں، ساس، سسر، دیور اور نند سب ہی رشتے ایک چھت تلے موجود تھے۔ اصل مسئلہ تو اس وقت ہوا جب ان کے شوہر شادی کی چھٹی گزار کر واپس روزگار کے سلسلے میں سعودیہ روانہ ہوئے۔ کچھ کاغذی کارروائی کی بنا پر وہ پاکستان میں ہی رہ گئیں۔ شوہر کے جانے کے بعد دوسرے ہی دن سسر صاحب نے سر پر ہاتھ پھیرنے اور پانی کا گلاس مانگنے کے بہانے اپنے رنگ دکھانے شروع کردیے۔ وہ تو خاتون کی چھٹی حس اور قسمت دونوں ہی اچھی تھی جو جلد ہی وہ صورتحال بھانپ گئیں اور شوہر پر جلد سعودیہ بلوانے کا دباؤ ڈال کر وہ پیا دیس ہی سدھار گئیں، ورنہ ایسے ماحول میں ذہنی مریض ہی بن جاتیں۔
یہی تذکرہ لنچ ٹائم میں کھانے کی میز پر چھڑا تو ایک آفس کولیگ نے بتایا کہ اس کی بہن کی طلاق کی وجہ بھی یہی ٹھہری۔ کولیگ نے بتایا کہ جہاں ان کی بہن بیاہی گئیں وہ 2 ہی بھائی بہن تھے اس لیے شادی شدہ نند بھی اپنے شوہر کے ساتھ اوپر والے پورشن میں رہائش پذیر تھیں۔ نندوئی صاحب ہنسی مذاق کے نام پر بیہودہ اور ذومعنی جملے کستے اور فون پر جنسی لطائف بھیجتے، ایک روز تو حد کردی اور سالے صاحب کی غیر موجودگی میں گھر آن دھمکے اور اپنی حدود سے باہر ہونے کی کوشش کی، جواب میں کولیگ کی بہن نے شور مچاکر محلہ والوں کو بلایا تو ان موصوف نے خاتون کو بھی اپنے ساتھ ملوث ہونے کا الزام لگا کر کردار کو داغدار کردیا، جس پر خاتون کے شوہر نے بے عزتی اور بہن کے جذباتی دباؤ میں آکر بیوی کو طلاق ہی دے ڈالی، اور یوں ایک گھر بسنے سے پہلے ہی اجڑ گیا۔
ایسی کہانیاں ہمارے معاشرے میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام بلاشبہ بہت سے فوائد کا حامل بھی ہے لیکن اس کے نقصانات ناقابلِ تلافی ہیں۔ بہت سے نامحرم رشتوں کی موجودگی میں آپ کیسے توقع رکھ سکتے ہیں کہ سب پارسا ہوں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہمیشہ رشتوں کا تقدس برباد کرنے والا کوئی نہ کوئی مرد ہی ہو۔
پھر سب سے زیادہ ستم تو اس وقت ہوتا ہے جب وکٹم بلیمنگ کرتے ہوئے پسنے والے کی ہی کردار کشی شروع کردی جائے اور سچائی کا کوئی یقین نہ کرے۔ اس صورت میں انسان قابلِ ترس شکل میں دائمی ڈپریشن اور نفسیاتی عارضہ میں لاحق ہوکر کوئی بھی انتہائی اور سنگین قدم اٹھا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں جب ہم نے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ناصر مصطفیٰ سے بات کی اور ایسی خواتین کی ذہنی کیفیت اور اثرات طبّی نکتہ نظر سے دریافت کیے تو بہت سے حیران کن نکات ہمارے منتظر تھے۔ جو یقینی طور پر عام تو ہوتے ہیں لیکن ان کی جانب ہم توجہ نہیں کر پاتے۔
ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ اوّل تو ہراسگی کی 2 بنیادی اقسام ہوتی ہیں جن میں زبانی ہراسگی اور جسمانی ہراسگی شامل ہیں، تاہم اکثر و بیشتر اسے ایک ہی کٹیگری 'ہراسگی' میں ڈال دیا جاتا ہے، جو ہرگز درست نہیں۔
پھر جب ہم مزید اس ہراسگی کو کھوجتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عموماً خواتین و حضرات کو اس بات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کوئی بلاوجہ آپ کو میسج کررہا ہے۔ آپ کہہ رہے کہ آپ مصروف ہیں لیکن پھر بھی آپ کو کال کی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں آپ کی صنف سے قطع نظر آپ کو ہراسگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
دوسری ہراسگی کی وہ قسم ہے جس میں آپ محافل، کسی ریسٹورینٹ یا گھر کے ڈرائنگ روم میں بھی طنز، طعنوں اور تمسخر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ البتہ خواتین اس قسم کی ہراسگی کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ شوہر کی جانب سے بھی آپ کو اس ہراسگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
مثال کے طور پر کوئی بھی اپنی بیوی کو دوسروں کی موجودگی میں شرمندہ کرنے کی کوشش کرے، جیسے ان کو تو اپنے شوہر کا خیال ہی نہیں یا میں دن رات محنت کرتا ہوں اور آپ پڑی سوئی رہتی ہیں کوئی خیال نہیں کہ شوہر کو چائے کا ہی پوچھ لیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
اگر ہراسگی کے ذہنی اور جسمانی اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یہ کافی سنگین ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ناصر مصطفیٰ نے کچھ ایسے اثرات کا تذکرہ کیا جن کا روزمرہ زندگی میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں لیکن ادراک نہیں کرپاتے۔
جسمانی اثرات
ہراسگی سے متاثرہ خاتون میں دماغی کے علاوہ بہت سے جسمانی مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ جن میں کچھ قابل ذکر مسائل درج ذیل ہیں۔
نیند میں کمی
ایسی خواتین کو نیند نہ آنے کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے جس سے باقی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
بھوک نہ لگنا
یہ بالکل عام سا مشاہدہ ہے کہ ایسی خواتین کی بھوک خراب ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ غذائی کمی کا شکار ہوجاتی ہیں اور کمزوری، چکر وغیرہ جیسے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
بلڈ پریشر اور شوگر لیول بڑھ جانا
کسی بھی قسم کی ہراسگی کو برداشت کرنے والی خواتین میں ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس ہوجانے یا بڑھ جانے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔
دیگر ذہنی و جسمانی مسائل
مندرجہ بالہ بیان کیے گئے مسائل کے علاوہ دیگر ذہنی و جسمانی مسائل بھی لاحق ہوسکتے ہیں جن کا تفصیل سے تذکرہ ضروری ہے تاکہ قارئین اس سنجیدہ نوعیت کے مسئلہ کا ادراک کرسکیں۔
بدمزاجی
ان مسائل پر گفتگو کی جائے تو ہراسگی کا شکار خواتین کی عام طور پر ذہنی حالت تباہ ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ بدمزاجی کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ چڑچڑاہٹ، اکتاہٹ ان کی گفتگو اور رویے سے چھلکتی ہے۔
بلاوجہ خوش مزاجی
عام تاثر یہ ہے کہ بدمزاج خواتین ہی ذہنی مرض کا شکار ہوتی ہیں جبکہ نفسیات کے ماہرین کے مطابق حد سے زیادہ خوش مزاجی بھی اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ خاتون لازمی طور کسی قسم کی ہراسگی کا سامنا کررہی ہے۔
مشاہداتی طور پر ایسی خواتین آپ نے بھی لازمی دیکھی ہوں گیں جو مسکرا مسکرا کر بغیر کسی وجہ اور موضوع کہ ہر بات میں یہ کہتی پائی جاتی ہیں کہ ہمارے گھر کا ماحول بہت ہی اچھا ہے، ہم تو بہت محبت سے رہتے ہیں۔ یقیناً ہوگا لیکن بے موقع اس کا اظہار یہ جتاتا ہے کہ کہیں گڑبڑ ہے اور کسی کو معلوم نہ ہوجائے اسی خوف کے تحت وہ خوشی اور محبت جتلا کر احساس دلانا چاہتی ہیں کہ ایسا ویسا کچھ نہیں۔
شوہر سے تعلقات خراب ہوجانا
ہراسگی کا سامنا کرنے والی شادی شدہ خواتین بدمزاجی اور خوف کے ماحول میں اپنے شوہر سے ہی تعلقات بگاڑ لیتی ہیں۔ وہ نہ اپنی بات کہہ پاتی ہیں اور نہ ہی اس کا حل تلاش کرتی ہیں جس کے نتیجے میں شوہر ان سے بدگمان ہوجاتے ہیں۔
بچوں کی تربیت میں عدم دلچسپی
ایسی خواتین جو کسی قسم کی ہراسگی کو جھیل رہی ہوں وہ اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت میں لاپرواہی برتنے لگتی ہیں۔ کیونکہ ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ میں جتنی بھی محنت و مشقت سے پال لوں بڑے ہوکر اس (بیٹے) نے بھی وہی کرنا ہے جو کوئی دوسرا کررہا ہے یا بیٹی نے بھی یہی سب برداشت کرنا ہے۔ ایسی سوچ تباہ کن تبدیلی لاتی ہے اور خاتون اپنے بچوں سے لاپرواہ ہوجاتی ہے۔ جس کے باعث بچے بھی صحیح و غلط میں تمیز نہیں کر پاتے اور بگڑ سکتے ہیں۔
تربیت کے غلط رجحان
ایسی ماں بچوں کی درست تربیت نہیں کرپاتی اور لاشعوری طور پر وہ اپنے بچوں کا تقابل ہراساں کرنے والے شخص سے ہی کرنے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ اپنی بیٹی کو کہہ سکتی ہے کہ اپنی پھوپھی پر ہی جائے گی یا بیٹا ہے تو اپنے باپ پر گیا ہے، اسی کی طرح حرکتیں ہیں۔
ایسے جملے بچوں کی شخصیت تباہ کرتے ہیں اور ان میں منفی خیالات ابھارتے ہیں۔
حصول اولاد میں مشکلات
ہراسگی کی شکار شادی شدہ خواتین میں تناؤ اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہارمونز گڑبڑ ہوجاتے ہیں اور ماہواری نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ (یہ مسئلہ غیر شادی شدہ خواتین کو بھی درپیش ہوسکتا ہے)۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ناصر مصطفیٰ نے تفصیل سے بتایا کہ دماغ میں پیدا ہونے والی سوچوں کا اثر سب سے پہلے انسان کے پیٹ پر پڑتا ہے اس لیے اکثر افراد کسی ٹینشن میں لوز موشن کا شکار ہوجاتے ہیں یا ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتی ہے۔ بالکل ایسا ہی ان خواتین کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور ان کا حمل ٹھہرتا نہیں یا بعض اوقات وہ امید سے ہوجانے کے بعد بھی اس حمل کو برقرار نہیں رکھ پاتیں۔ یہ مسئلہ ذہنی بھی ہے اور جسمانی بھی۔
خاندان کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے
مشترکہ خاندانی نظام میں تمام رشتے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور کسی ایک پر دراڑ آئے تو پورے خاندان پر اثر پڑتا ہے۔ اگر متاثرہ خاتون اپنے شوہر کو تمام حقیقت بتائے تو دو صورتیں ہوتی ہیں یا تو اس کا شوہر اس کی بات کو ماننے سے انکار کرے گا اور اسے جھٹلا دے گا جس کے باعث وہ خاتون ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوگی اور یوں اسی کی شخصیت بے یقینی کی وجہ سے تباہ ہوجائے گی اس کے علاوہ اس کی صحت بھی برباد ہوگی۔ اور دوسری صورت یہ ہوگی کہ وہ اپنی بیوی کی بات مان لے گا اور یوں جس فرد پر الزام لگا ہے اس کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے۔
ہر معاشرے میں نظام انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں، تاہم جب اس نظام میں گھٹن اور آلودگی بڑھ جائے تو یہ روگ بن جاتے ہیں۔ اور ان سے چھٹکارا ہی بہترین حل ثابت ہوسکتا ہے۔ کسی بھی بوسیدہ طرزِ زندگی کا حصہ بننے کے بجائے اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے ایسا گھر فراہم کرنا مقصد ہونا چاہیے جہاں وہ سکون اور آسودگی سے سانس لے سکیں۔
ان تمام عوامل کو جاننے کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہراساں کی جانے والی خواتین کے ذہنی و جسمانی مسائل کا حل کیا ہونا چاہیے اور اگر کوئی خاتون/ لڑکی/ بچی اس قسم کے جرم کا سامنا کررہی ہو اسے کیا کرنا چاہیے۔
ذہنی و جسمانی مسائل کو کس طرح حل کیا جائے؟
ہراساں کرنے والے کو خبردار کیجیے
سب سے عام غلطی یہ ہے کہ جو شخص ہراساں کررہا ہے آپ اس کا آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں اور پلٹ کر کبھی اسے منع نہیں کرتے، اس کو خبردار نہیں کرتے جس کے باعث وہ مزید شیر ہوتا چلا جاتا ہے، لہٰذا سب سے پہلے اس شخص کو سختی سے خبردار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے جواب میں محتاط ہوجائے اور ہراساں کرنا ترک کردے یا کم کردے۔ تو سب سے پہلے اس شخص سے بات کیجیے۔
شوہر سے بات کیجیے
مشترکہ خاندانی نظام میں ہراساں ہونے والی خاتون کو سب سے پہلے اپنے شوہر کو تمام صورتحال اور حقائق بتانے چاہئیں۔ اس سے پہلے کہ دوسرے شخص کی جانب سے خاتون پر کوئی جھوٹا الزام لگے، خاتون کو پہلے ہی اپنے شوہر کو اعتماد میں لے کر تمام تفصیلات بتانی چاہئیں۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ شوہر لڑ جھگڑ کر جذباتیت سے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالے بلکہ وہ بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے بھی مسئلہ حل کرسکتا ہے۔
قانون کی مدد لینی چاہیے
اگر دیگر طریقوں سے مسئلہ حل نہ ہورہا ہو اور شوہر یا بھائی کی جانب سے بھی مدد نہ مل سکے تو متاثرہ خاتون کو قانون کی مدد لینی چاہیے۔
ہمارے ہاں خواتین کی اکثریت اس مغالطے کا شکار رہتی ہیں کہ بات کرنے سے وہ کمزور ہوجائیں گی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بات کرنے اور حل تلاش کرنے سے مزید مضبوط ہوجاتی ہیں۔
لکھاری نے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا ہے اور مختلف اداروں میں تحریر کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔