نقطہ نظر

پی ایس ایل میں یکطرفہ مقابلوں کا دن

اب اہم میچ آرہے ہیں، بہتر فارم کسی بھی ٹیم کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ پلے آف مقابلوں میں 2 اچھے دن کسی کو بھی ٹورنامنٹ جتوا سکتے ہیں۔

اتوار کے دن اسٹیڈیم میں چھٹی گزارنے اور کرکٹ کا لطف اٹھانے کا خیال لیے ہزاروں تماشائی قذافی اسٹیڈیم پہنچے تھے لیکن پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں یہ یکطرفہ مقابلوں کا دن تھا اور دونوں میچوں کا فیصلہ میچ ختم ہونے سے بہت پہلے ہی ہوچکا تھا۔


کراچی کنگز کی مایوسیوں میں مزید اضافہ


پاکستان سپر لیگ سیزن 7 کا ہر گزرتا دن کراچی کنگز کے چاہنے والوں کی مایوسی میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ شکست نے تو جیسے کراچی کنگز کے ڈریسنگ روم میں طویل بسیرا ہی کرلیا ہے۔ مسلسل اور ایسی شکست کہ کہیں لگتا ہی نہیں کہ میدان میں 2 برابر کی ٹیمیں میچ کھیل رہی ہیں۔

میچ دیکھتے ہوئے ایسے لگتا ہے جیسے آئی سی سی ورلڈکپ میں کسی بڑی ٹیم کا کسی ایسوسی ایٹ ٹیم سے میچ ہو۔ ایسوسی ایٹ ٹیم بھی وہ کہ جس کے کھلاڑیوں کے لیے بس ورلڈکپ کھیلنا ہی اعزاز ہے اور اگر ایک، دو میچ جیت گئے تو کیا کہنے۔

کراچی کنگز کی قسمت میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں 5 مسلسل شکستیں آئیں اور پھر ٹورنامنٹ لاہور منتقل ہوگیا۔ کہیں نہ کہیں کراچی کنگز کے فینز کے دلوں میں خیال تھا کہ شاید اب حالات بدل جائیں لیکن لاہور میں ہونے والے پہلے میچ میں ایک اور بڑی شکست نے کراچی کنگز کے لیے پلے آف مقابلوں تک رسائی کا ہر امکان ختم کردیا ہے۔

جب پہلی بیٹنگ کرتے ہوئے کراچی کے بیٹسمین ناکام ہونے لگے تو اس بار بابر اعظم نے ٹاس جیت کر ہدف کا تعاقب کرنے کی ٹھانی۔ تاہم کراچی کنگز کی باؤلنگ اور فیلڈنگ کچھ ایسی تھی کہ پشاور زلمی کو ایک بڑا اسکور کھڑا کرنے کا موقع مل گیا اور ایسے اسکور تک پہنچنا کراچی کنگز کے لیے اس ٹورنامنٹ میں تو ممکن نظر نہیں آتا۔

پہلا میچ کھیلنے والے محمد حارث پشاور زلمی کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آئے۔ کچھ مواقع تو ملے، کچھ غلط شاٹس بھی کھیلے لیکن مجموعی طور پر وہ ایک ایسی اننگ کھیل گئے جس نے پشاور زلمی کو ایک بڑے اسکور تک پہنچا دیا۔

یہاں ایک اہم بات یہ کہ صرف کراچی کی ٹیم اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کررہی بلکہ کپتان بابر اعظم بھی یہی کررہے ہیں۔ اگرچہ بابر اعظم ٹورنامنٹ میں مسلسل رنز تو بنا رہے ہیں لیکن ان کے اسکور ٹیم کی فتح کے بجائے شکست کا باعث بن رہے ہیں۔ بابر اعظم میں وہ اعتماد بالکل نظر نہیں آرہا جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔ اکثر ایسا ہو رہا ہے کہ بابر مطلوبہ رن ریٹ کے مطابق کھیلنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے یا ان میں یہ اہلیت و صلاحیت ہی نہیں رہی۔

مکی آرتھر نے جب انہیں ٹی20 کرکٹ میں اوپنر کے طور پر آزمایا تو انہیں پورے 20 اوورز کھیلنے کو کہا۔ یہ فیصلہ بابر اعظم کے لیے اور پاکستانی ٹیم کے لیے بہترین ثابت ہوا، پاکستان ٹیم مسلسل جیتنے لگی اور بابر بھی ٹی20 کرکٹ میں نمبر ایک بیٹسمین بن گئے۔

اگر بات قومی ٹیم کی ہو تو ابھی بھی یہ پالیسی ٹھیک چل رہی ہے، کراچی کنگز کے لیے بھی اس پالیسی نے اچھے نتائج دیے لیکن اس بار کچھ الگ ہو رہا ہے۔ بابر اعظم اسکور تو بنا رہے ہیں لیکن فارم میں نہیں لگ رہے، کور ڈرائیو ہو یا کٹ شاٹ یا تھرڈ مین کی جانب کھیلا گیا ڈیب شاٹ، بابر سے کچھ بھی نہیں کھیلا جا رہا اور وہ وکٹ دینے کو تیار نہیں۔ شاٹ بھی ایسے کھیلتے ہیں کہ لگ گیا تو ٹھیک ورنہ وکٹ تو نہیں گرنے دینی اور اس دوران کراچی کنگز مسلسل 6 میچ ہار گئے۔

بابر اعظم کے علاوہ بھی کراچی کنگز کا کوئی بیٹسمین اسکور نہیں بنا رہا۔ جو بنا رہا ہے وہ بابر اعظم سے بھی زیادہ سست روی سے اسکور کر رہا ہے اور یوں شکست کا سلسلہ طویل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستانی کھلاڑی ہوں یا غیر ملکی کھلاڑی، کراچی کنگز کے بیٹسمینوں کے لیے اسکور بنانا جیسا ناممکن کام ہوچکا ہے۔

جو کلارک ٹی20 کرکٹ میں 150 سے زائد کا اسٹرائیک ریٹ رکھتے ہیں، مگر ان کے لیے بھی پورے ٹورنامنٹ میں ہٹ لگانا یا وکٹوں کے عقب میں کیچ پکڑنا جیسے ایک ناممکن کام ہوچکا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال محمد نبی، لوئس گریگری اور دیگر غیر ملکی کھلاڑیوں کا ہے۔

بات صرف بیٹنگ تک ہی محدود نہیں ہے، باؤلنگ میں بھی کراچی کنگز کی جانب سے کچھ غیر معمولی کارکردگی سامنے نہیں آئی۔ دیگر ٹیموں میں کسی کی جانب سے بہترین فاسٹ باؤلنگ کا مظاہرہ جاری ہے تو کوئی ٹیم اپنے اسپنرز سے مخالفین کو قابو میں کر رہی ہے۔ لیکن بات کراچی کنگز کی ہو تو نہ فاسٹ باؤلر کچھ کر پارہے ہیں اور اسپنرز تو شاید کراچی کے پاس کوئی ہے ہی نہیں کیونکہ کہ عماد وسیم کو اسپنر تو نہیں کہا جاسکتا۔ آل راؤنڈرز کی بیٹنگ کا بھی مناسب استعمال نہیں کیا جارہا کیونکہ ٹاپ آرڈر بیٹسمین نہ اسکور بناتے ہیں اور نہ ہی وکٹ گنوا کر دوسروں کو کھیلنے کا موقع دیتے ہیں۔

پشاور زلمی کے لیے بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں کہ کسی بڑی ٹیم کے خلاف کھیلنا ابھی ان کے لیے مشکل ہے لیکن کراچی کنگز سے اپنے دونوں میچ جیت کر انہوں نے خود کو ابھی تک پلے آف کی دوڑ میں شامل رکھا ہوا ہے۔ کراچی کنگز کے کپتان اگر پاکستان سپر لیگ کے ٹاپ اسکورر ہیں تو پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض ٹاپ وکٹ ٹیکر ہیں لیکن نہ بابر اعظم کے رنز ان کی ٹیم کے کچھ کام آرہے ہیں اور نہ وہاب ریاض کی وکٹیں۔

ان دونوں ٹیموں میں فرق یہ ہے کہ پشاور زلمی کی جانب سے کچھ نیا کرنے کی کوشش جاری ہے۔ کامران اکمل اگر ناکام ہوئے تو ان کی جگہ محمد حارث کو کھلا دیا گیا اور حارث نے رنز بھی بنالیے۔ حیدر علی ٹاپ آرڈر میں ناکام رہے تو انہیں نیچے کھلا دیا گیا۔ شعیب ملک سے باؤلنگ کا آغاز کروایا جا رہا ہے اور وہاب ریاض خود پاور پلے میں باؤلنگ سے گریز کر رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہو رہا ہے۔

پشاور زلمی کی ٹیم ابھی تک تو پلے آف میں جانے کے لیے زیادہ فیورٹ نہیں ہے لیکن ٹورنامنٹ میں اب اہم میچ آرہے ہیں اور کوئی بھی ٹیم اچھی فارم پکڑ کر نہ صرف نیچے سے اوپر جاسکتی ہے بلکہ پلے آف مقابلوں میں 2 اچھے دن کسی کو بھی ٹورنامنٹ جتوا سکتے ہیں۔


گلیڈی ایٹرز دوبارہ اپنے خول میں بند


دوسرے میچ کا فیصلہ تو شاید پہلے اوور میں ہی ہوگیا تھا جب شاہین آفریدی نے جیسن روئے اور جیمز ونس کو پویلین کی راہ دکھا دی۔ جیسن روئے نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں ایک نئی زندگی پھونک دی تھی اور پچھلے دونوں میچوں میں فتح کی ایک اہم وجہ وہی تھے۔

اس میچ میں بھی وہ امپائر کے فیصلے سے خوش نظر نہیں آئے لیکن ریویو نہ لیا۔ اگلی ہی گیند پر جیمز ونس کی پویلین واپسی نے گلیڈی ایٹرز کی بیٹنگ کو ایک خول میں بند کردیا کہ جس سے وہ نکل ہی نہ پائے۔ عمر اکمل نے کچھ کوشش کی اور افتخار بھی ایک اچھی اننگ کھیل گئے لیکن دونوں کی یہ کوششیں اسکور کو باعزت نہ بنا سکیں۔

ٹی20 میچ کے پہلے ہی اوور میں وکٹ حاصل کرنا شاہین آفریدی کا ٹریڈ مارک سا بنتا جا رہا ہے اور یہاں تو انہوں نے 2 وکٹیں حاصل کرتے ہوئے گلیڈی ایٹرز کی بیٹنگ سے جان ہی نکال دی۔ لاہور قلندرز کی باؤلنگ لائن جو اس ٹورنامنٹ کی بہترین باؤلنگ لائن بھی ہے، اس نے گلیڈی ایٹرز کے بیٹسمینوں کو کسی بھی قسم کا کوئی موقع نہ دیا۔

لاہور قلندرز کی جانب سے جہاں شاہین آفریدی پہلے ہی اوور میں مخالفین کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں وہیں حارث رؤف کی رفتار اور زمان خان کا ایکشن اور لائن اور لینتھ کا بہترین استعمال قلندرز کو ٹورنامنٹ کا سب سے خطرناک باؤلنگ یونٹ بنا رہا ہے۔

ان تینوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے خطرناک ترین لیگ اسپنر راشد خان کی خدمات بھی لاہور قلندرز کو حاصل ہیں۔ راشد اس بار وکٹوں کے ڈھیر تو نہیں لگا پائے لیکن کسی بھی بیٹسمین کو راشد نے کھل کر کھیلنے نہیں دیا اور یہی کچھ گلیڈی ایٹرز کے خلاف میچ میں بھی ہوا۔

ہدف چھوٹا سا تھا اور فخر زمان شاید اپنی زندگی کی بہترین فارم میں ہیں۔ شروعات تو سُست تھی لیکن فخر کی ایک اور نصف سنچری نے ٹارگٹ کو نہایت آسان بنا دیا۔

گلیڈی ایٹرز کی میچ میں واپسی کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ پاور پلے میں 2، 3 وکٹیں حاصل کرلیتے لیکن فخر زمان اور کامران غلام نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ نہ مسٹری اسپنر کام آئے اور نہ ہی کسی فاسٹ باؤلر کی ایک چلی اور میچ جو بہت پہلے قلندرز کے نام ہوچکا تھا، بالآخر قلندرز نے جیت ہی لیا۔

اتوار کو ہونے والے ان 2 مقابلوں کے بعد پوائنٹس ٹیبل دلچسپ ہوچکا ہے کیونکہ اب کوئٹہ اور پشاور نے اپنے 7، 7 میچوں میں 3 کامیابی حاصل کی ہے اور 6، 6 پوائنٹس کے ساتھ چوتھے اور پانچویں نمبر پر موجود ہیں۔ اس لیے اگلے تینوں میچ ان دونوں ٹیموں کے لیے اہم ترین ثابت ہوسکتے ہیں، کیونکہ یہاں سے جس ٹیم نے بھی فارم حاصل کرلی وہ اگلے راؤنڈ میں جانے کی اہل ہوجائے گی۔

شہزاد فاروق

ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔