اسمارٹ کھڑکیاں جو ہیٹر یا اے سی کی ضرورت ختم کردیں
سائنسدانوں نے ایک ایسی اسمارٹ کھڑکی تیار کی ہے جو سردیوں میں ہیٹر جبکہ گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر کا کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پٹسبرگ یونیورسٹی کے ماہرین نے انتہائی پتلی اسمارٹ گلیزنگ ٹیکنالوجی تیار کی ہے جس کو گھروں میں موجود کھڑکیوں پر استعمال کیا جاسکے گا۔
گلیزنگ کو کیمیائی مرکبات سے تیار کیا گیا ہے جو سرد موسم میں سورج کی روشنی کو جذب جبکہ گرم موسم میں روشنی یا حرارت کو پلٹانے کی صلاحیت رکھنے والی ٹیکنالوجی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی سورج کی انفراریڈ شعاعوں میں موجود تھرمل توانائی حرارت کو جذب کرکے سرد موسم کے دوران کمرے میں دوبارہ خارج کرتی ہے یا گرمیوں میں واپس پلٹا کر کمرے کو ٹھنڈا کرتی ہے۔
سائنسدانوں کے خیال میں اس اسمارٹ ونڈو ٹیکنالوجی سے توانائی کی ضرورت میں ایک تہائی حد تک کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
انہوں نے اسے مؤثر، خوبصورت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ماحول دوست ٹیکنالوجی کو کامیابی سے اپنانے کے لیے اہم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ان اسمارٹ کھڑکیوں کی اہم ترین بات موسموں کی ضرورت کے مطابق خود کو بدلنا ہے، وہ سردیوں میں سورج کی انفراریڈ شعاعوں کو جذب کرکے عمارت کے اندر گرمائش پیدا کرتی ہیں۔
اسی طرح گرم مہینوں میں سورج کی روشنی جذب کرنے کی بجائے ان کو پلٹا کر عمارت کا درجہ حرارت کم رکھنا ممکن بناتی ہے۔
گلیزنگ کی پٹی 300 نانومیٹرز سے بھی پتلی ہے جس پر ایسے میٹریلز کی تہہ موجود ہے جو سورج کی رونی کے جذب یا اخراج کو ممکن بناتے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق دونوں صورتوں میں سورج کی روشنی ایک جیسی ہی نظر آتی ہے اور لوگ کھڑکی میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کرسکتے، جو ماحول دوست ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے لیے اہم بھی ہے۔
ان کے مطابق اس عمل سے ایئرکنڈیشنر کی ضرورت کم محسوس ہوگی جبکہ بہار یا خزاں کے دوران 30 فیصد میٹریل حرارت کو دور کرے گا تو 70 فیصد جذب کرکے کمرے کا درجہ حرارت معتدل بنائے گا۔
محققین کے تخمینے کے مطابق ان کھڑکیوں سے توانائی کی سالانہ ضرورت میں 20 سے 34 فیصد کمی آئے گی۔
ابھی ماہرین کی جانب سے آکسفورڈ یونیورسٹی کی ذیلی کمپنی بوڈل ٹیکنالوجیز کے ساتھ مل کر اس کے پروٹوٹائپ ماڈل کی تیاری اور آزمائش پر کیا جارہا ہے۔
یعنی ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اسمارٹ ونڈوز کب تک عام افراد کو دستیاب ہوں گی مگر ماہرین کو امید ہے کہ ایسا بہت جلد ممکن ہوسکے گا۔
اس ٹیکنالوجی کے اب تک کے نتائج جریدے اے سی ایس فوٹونیکس میں شائع ہوئے۔