پاکستان

صاف پانی کیس: 'کسی عوامی عہدیدار کے خلاف الزامات درست نہیں'

یہ کیس معاہدے کی شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کا ایک کیس تھا جو نیب آرڈیننس کے دائرہ کار میں نہیں آتا، احتساب عدالت کا تفصیلی فیصلہ

پنجاب صاف پانی کمپنی (پی ایس پی سی) ریفرنس میں 16 ملزمان کی بریت کی درخواستوں کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کمپنی کی واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کے منصوبے میں کسی عوامی عہدیدار ہولڈر یا دیگر کے خلاف بدعنوانی، متعلقہ قواین کی خلاف ورزی یا کسی قسم کے تضاد کا کوئی الزام درست نہیں پایا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احتساب عدالت نمبر 5 کے جج محمد ساجد علی نے پی ایس پی سی کے سابق چیئرمین اور مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے راجا قمر الاسلام، سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم اجمل اور 14 دیگر ملزمان کو قومی احتساب بیورو (نیب ) کی جانب سے دائر ریفرنس میں 31 جنوری کو بری کر دیا تھا۔

نیب نے مسلم لیگ (ن) کے شروع کیے گئے منصوبے میں تقریباً 34 کروڑ 58 لاکھ روپے کی کرپشن اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:صاف پانی کمپنی ریفرنس: لیگی رہنما قمر الاسلام راجا سمیت 16 ملزمان بری

اس ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی بیٹی اور داماد کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے ان کے اثاثے ضبط کر لیے گئے ہیں۔

24 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جج نے کہا کہ ریکارڈ پر ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے جس سے ظاہر ہو یا اس بات کی نشاندہی ہو کہ اس اسکیم کی منظوری یا اس پر عمل درآمد کے عمل کے دوران کسی عوامی عہدے دار نے یا کسی دوسرے شخص نے کوئی بھی مالی یا دیگر کوئی مادی فائدہ کسی شخص کو دیا ہو یا کسی سے حاصل کیا ہو اس لیے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت کوئی جرم نہیں ہوا۔

قواعد کی خلاف ورزی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے، جج کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ نکتہ در نکتہ منصوبے کی تنصیب کے حوالے سے الزامات پر بات کرنے کے بعد میرے ذہن میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ریفرنس میں کسی بھی مواد کی خلاف ورزی یا تضاد کو اجاگر نہیں کیا جا سکتا۔ "

مزید پڑھیں:صاف پانی اسکینڈل: شہباز شریف کی بیٹی، داماد کو اشتہاری قرار دینے کا تحریری حکم جاری

احتساب عدالت کے جج نے اپنے فیصلے میں مزید نوٹ کیا کہ منصوبے کے سروے، جائزے کے مرحلے سے لے کر منصوبے کی تکمیل اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب تک متعلقہ قواعد و ضوابط کو عام طور پر پوری احتیاط کے ساتھ دیکھا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ منصوبے کے مختلف مراحل میں بھی جو تبدیلیاں کی گئیں ان پر متعلقہ کمیٹیوں کی جانب سے اچھی طرح سے بحث کی گئی اور اگر کوئی سفارش کی بھی گئی تو صرف اس مقصد کے ساتھ سفارش کی گئی اور منظوری دی گئی تاکہ منصوبے کی مجموعی لاگت میں اضافہ کیے بغیر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔

کرپشن کے الزام

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے داماد عمران علی یوسف کی ملکیتی عمارت میں کمپنی کے لیے کرائے پر دفتر حاصل کرنے کے معاملے پر جج نے آبزرویشن دی کہ اس معاملے میں ریکارڈ کے مطابق کسی قانون یا قواعد کی خلاف ورزی یا مالیاتی دستور کی کوئی خاص خلاف ورزی نہیں کی گئی۔

جج کا اپنے فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ سرکاری خزانے کو مبینہ نقصان کے طور پر اندازہ لگائی رقم پیشگی کرائے اور سیکیورٹی وغیرہ کی مد میں ادا کی گئی تھی جبکہ کرائے کی جگہ پر پی ایس پی سی کے عملے نے قبضہ کر لیا۔

جج نے اپنے فیصلے میں یہ بھی نوٹ کیا کہ کرائے کے معاہدے کو پی ایس پی سی کی انتظامیہ نے صرف اس بنیاد پر ختم کر دیا کہ کرائے پر لی گی جگہ کسی سیاسی شخصیت کی ملکیت تھی اور کمپنی کسی سیاسی وابستگی سے منسلک نہیں ہونا چاہتی۔

تفصیلی فیصلے میں جج نے یہ بھی کہا کہ نہ تو سابق سی ای او ملزم اجمل کی جانب سے اختیارات کا کوئی غلط استعمال کیا گیا، اور نہ ہی ایسا لگتا ہے کہ اس نے یا اس کے کسی ساتھی ملزم نے کیس کو کوئی ناجائز فائدہ پہنچایا، زیادہ سے زیادہ یہ کیس معاہدے کی شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کا ایک کیس تھا جو نیب آرڈیننس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

اپنے فیصلے میں جج نے مزید کہا ہے کہ سرکاری خزانے کو ہونے والے مبینہ نقصان کا تعین اس منصوبے کی تکمیل کے بعد حاصل کی گئی رپورٹس کی بنیاد پر کیا گیا جبکہ مارکیٹ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ان رپورٹس پر بھروسہ کرنا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی محفوظ ہے۔

فیصلے کے مطابق سب سے بڑھ کر ان رپورٹس کو بغیر کسی واضح اور ٹھوس ثبوت کے کسی بھی ملزم کی طرف سے مبینہ طور پر حاصل کیے گئے یا اس کو عطا کیے گئے مالیاتی فائدے کا حتمی ثبوت نہیں سمجھا جا سکتا۔

ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے قتل کے واقعات کو نہایت سختی سے کچلیں گے، وزیراعظم

علی ظفر اور میشا شفیع کے ہتک عزت کے دعوے ایک دوسرے سے الگ ہیں، لاہور ہائیکورٹ

کوئٹہ-اسلام آباد معرکہ، ایک مقابلہ کپتانوں کا