بالآخر قلندروں نے پی ایس ایل کے ’ڈان‘ کو قابو کر ہی لیا
جو کام کوئی نہیں کرتا وہ قلندرز کرتے ہیں اور اب تک کی ناقابلِ شکست ٹیم ملتان سلطانز کو بالآخر لاہور قلندرز نے ہی شکست دی۔ پہلے یا بعد میں کھیلنے سے جس ٹیم کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا، اسے لاہور قلندرز نے آخرکار دبوچ ہی لیا۔
دونوں ٹیموں کے درمیان ہونے والے گزشتہ مقابلے میں لاہور قلندرز کے باؤلرز 207 کے ہدف کا دفاع نہیں کر پائے تھے اور اسی لیے ایک اچھے اسکور کے باوجود ملتان سلطانز کی فتح کافی واضح لگ رہی تھی لیکن اس بار لاہور قلندرز نے شروع سے ہی ملتان کی بیٹنگ کو قابو میں رکھا۔
کرکٹ کی ضرب المثل ہے کہ ’کیچز ون میچز‘ یعنی کیچ پکڑیں اور میچ جیتیں لیکن شاید لاہور قلندرز پر یہ مثال بھی صادق نہیں آتی۔ لاہور قلندرز کے فیلڈرز جب تک 2، 3 کیچ گرا نہ دیں تب تک میچ نہیں جیت پاتی۔ اس میچ میں ایک بار پھر بہترین باؤلنگ اور بیٹنگ کے ساتھ نہایت ناقص فیلڈنگ دیکھنے کو ملی۔
جہاں بگ بیش اور دوسری لیگز میں بہترین فیلڈنگ اور شاندار کیچ دیکھنے کو ملتے ہیں، وہیں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں فیلڈنگ کا معیار نہایت ناقص رہا ہے۔ امید یہ ہوتی ہے کہ پاکستانی فیلڈرز غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلیں گے تو ان کی فیلڈنگ بہتر ہوگی لیکن یہاں تو غیر ملکی کھلاڑیوں کی فیلڈنگ بھی خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس میچ میں بھی فل سالٹ نے کیچ گرانے کے ساتھ ساتھ کیپنگ میں بھی خراب کارکردگی پیش کی۔
لاہور قلندرز نے اس ٹورنامنٹ میں ابھی تک بین ڈنک، ذیشان اشرف اور فل سالٹ کو بطور کیپر آزمایا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی کامیاب پیکج نہ بن سکا۔ بین ڈنک اگر بیٹنگ میں ناکام رہے تو باقی دونوں نے وکٹ کے پیچھے مایوس کیا۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو قلندرز کو اگلے اہم میچوں میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
لاہور قلندرز کے لیے اہم میچوں میں عبداللہ شفیق، کامران غلام اور محمد حفیظ کو یکے بعد دیگر بیٹنگ پر بھیجنا بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ فخر زمان اس وقت بہترین فارم میں ہیں اور ہر میچ میں اسکور کرنے کے ساتھ ساتھ بہترین اسٹرائیک ریٹ بھی لے کر چل رہے ہیں۔ تاہم ساتھی بلے بازوں کا سست کھیلنا اور بعد میں بڑے ہٹرز کو بیٹنگ کا موقع ہی نہ مل پانا، فتح اور شکست کے درمیان فرق ثابت ہوسکتا ہے۔
محمد حفیظ شروع کی 20 گیندوں پر کافی پریشان نظر آئے اور لگ رہا تھا کہ اگر وہ زیادہ دیر وکٹ پر رہے تو وہ لاہور کی شکست کی وجہ بن جائیں گے، مگر عباس آفریدی نے ایک کمزور بال پھینکتے ہوئے حفیظ کو ان مشکل حالات میں چھکا لگانے کی مہلت دی اور اس کے بعد صورتحال کچھ بہتر ہوئی۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو یقینی طور پر حفیظ کی یہ اننگ لاہور قلندرز کو مہنگی پڑسکتی تھی۔ خاص طور پر تب جب محمد حفیظ کی یہ اننگ کامران غلام کی ایک سست اننگ کے بعد سامنے آئی تھی۔ لاہور قلندرز کو کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ پاور ہٹرز کو چند اوورز تو لازمی کھیلنے کو مل سکیں۔ عبداللہ شفیق یا کامران غلام میں سے ایک کی جگہ ذیشان اشرف کو موقع دینا بھی شاید ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ملتان سلطانز نے چند روز پہلے جب لاہور قلندرز کے خلاف ایک بڑے اسکور کا کامیاب تعاقب کیا تھا تو اس میں ان کے اوپنرز کی بہترین بیٹنگ کا اہم کردار تھا۔ شان مسعود اور محمد رضوان نے لاہور قلندرز کے باؤلرز کے خلاف پُراعتماد بیٹنگ کی جس کے سبب میچ کافی آسان ہوگیا تھا۔
لیکن لاہور آمد پر محمد رضوان کے اسٹروکس کچھ خفا ہوگئے ہیں۔ اب تک کھیلے گئے دونوں میچوں میں رضوان کے اسٹروکس میں وہ روانی نہیں دکھائی دی جس سے وہ پچھلا پورا سال کھیلتے رہے۔ ملتان سلطانز کی ٹیم اور اس کے چاہنے والے یہی امید کر رہے ہوں گے کہ جلد ہی رضوان اپنی اصل فارم میں واپس نظر آئیں گے۔
صہیب مقصود پچھلے سال پی ایس ایل میں بہترین فارم میں تھے، بہترین اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ مسلسل اسکور کررہے تھے، اور اسی وجہ سے ان کی قومی ٹیم میں بھی سلیکشن ہوئی تھی۔ مگر فٹنس مسائل کی وجہ سے وہ قومی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے اور اب لگتا ہے کہ ان کی وہ فارم بھی کہیں کھو چکی ہے۔
اس میچ میں راشد خان کا وہ اوور نہایت اہم رہا کہ جس میں راشد نے یکے بعد دیگر محمد رضوان اور رائیلی روسو کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ روسو نے ایل بی ڈبلیو فیصلے کے خلاف ریویو لیا تو بال بس وکٹوں کو ہلکی سی ہی چُھوتی نظر آئی، مگر ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ فیلڈ امپائر مائیکل گف آوٹ قرار دے چکے تھے اور تھرڈ امپائر کے پاس اسی فیصلے کے ساتھ جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
لاہور میں میچوں کے آغاز سے قبل یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ قذافی اسٹیڈیم میں اوس کا میچ کے فیصلے میں اہم کردار ہوگا اور بعد میں بیٹنگ کافی آسان رہے گی مگر ابھی تک کھیلے گئے دونوں میچوں میں گھاس پر اوس تو ضرور موجود رہی لیکن اتنی زیادہ نہیں کہ گیند پر گرفت کرنے میں باؤلرز اور فیلڈرز کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
ابھی تک دونوں میچ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم نے آسانی سے جیت لیے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ اوس شاید اتنی زیادہ اثر انداز نہ ہو جتنی توقع تھی اور یقینی طور پر یہ ٹورنامنٹ کے لیے اچھا ہی ہوگا۔
پی ایس ایل میں ایک اور اچھی بات یہ ہوئی کہ 16 فروری سے 100 فیصد تماشائیوں کو میدان میں آنے کی اجازت ہوگی۔ امید یہی کی جاتی ہے کہ خاص طور پر ویک اینڈ میں اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوا نظر آئے گا اور پی ایس ایل کا بہترین ماحول بن پائے گا۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔