نواب شاہ یونیورسٹی کے اہلکاروں پر ہراسانی کا الزام، تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل
سندھ کی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے نواب شاہ کی پیپلزیونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن (پی یو ایم ایچ ایس) میں خاتون ہاؤس افسر کی جانب سے یونیورسٹی کے تین عہدیداروں پر عائد ہراسانی کے الزام کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی کی سربراہی سندھ ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد جمن بہوتو کریں گے جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز ڈاکٹر شہاب الدین قریشی، ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز ڈاکٹر رخسانہ چنار دیگر اراکین کے طور پر شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: `[خاتون ہاؤس افسر کا یونیورسٹی اہلکاروں پر ہراسانی، قتل کی کوشش کا الزام][1]`
نوٹیفکیشن کے مطابق تفتیشی کمیٹی ہراسانی ایکٹ کے قواعد اور ضوابط پر عمل کرتے ہوئے اپنی انکوائری مکمل کرے گی۔
صوبائی حکومت کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کے سربراہ کو مزید اراکین شامل کرنے، تفتیش میں مزید افراد شامل کرنے اور توسیع کرنے کا اختیار ہوگا۔
کمیٹی کے سربراہ کو بتایا گیا ہے کہ کمیٹی ثبوت جمع کرکے رپورٹ مناسب کارروائی کے لیے تجاویز کے ساتھ تین روز میں جمع کرے۔کمیٹی کے سربراہ نے پی یو ایم ایچ ایس کے وائس چانسلر کو آگاہ کیا کہ کمیٹی 11 فروری کو (کل) صبح 10 بجے واقعے کی انکوائری کرے گی۔
انہوں نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے درخواست کی کہ تمام مطلوبہ افسران اور عہدیداروں کی دستیابی یقینی بنائی جائے اور متاثرہ خاتون پروین رند کی حاضری بھی یقنی بنائیں۔
خیال رہے کہ یونیورسٹی کے نرسنگ سیکشن میں ہاؤس جاب کرنے والی دادو کی رہائشی پروین رند نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا تھا کہ تین اہلکاروں نے انہیں ہاسٹل کے کمرے میں بند کرکے تشدد کیا۔
انہوں نے ویڈیو میں اپنے بازوؤں پر تشدد کے نشانات دکھایا اورکہا کہ مذکورہ اہلکار انہیں اپنے غیر اخلاقی مطالبات ماننے پر مجبور کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے طالبہ کی بلیک میل کیے جانے پر خودکشی کا نوٹس لے لیا
ان کا کہنا تھا کہ تینوں اہلکار یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کے پہلے سال سے ہی انہیں ہراساں کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان اہلکاروں نے انہیں پہلے قتل کی گئیں دوسری لڑکیوں کی طرح مجھے بھی مارنے کی کوشش کی۔
پروین رند نے بتایا کہ اس سے قبل ان تینوں نے اپنے مطالبات منوانے میں ناکامی پر انہیں بلیک میل کرنے کے لیے ان کا موبائل فون چھیننے کی کوشش بھی کی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہاسٹل میں کسی طالبہ نے خودکشی نہیں کی بلکہ ان سب کو قتل کیا گیا تھا، وہ بظاہر ڈاکٹر نمرتا اور ڈاکٹر نوشین شاہ کی چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں ان کی ہاسٹل کے کمروں میں پراسرار ہلاکت، سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمرے میں نائلہ رند کی موت اور ڈاکٹر عصمت راجپوت کی سیتا روڈ ٹاؤن میں اپنے گھر میں 'خودکشی' کا حوالہ دے رہی تھیں۔
پروین رند کا کہنا تھا کہ انہوں نے کافی تکالیف برداشت کی ہیں لیکن اب وہ اپنی جان اور عزت کے تحفظ کے لیے میڈیا کے سامنے یہ سب بتا رہی ہیں۔
نواب شاہ کے ایس ایس پی عامر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ سٹی ڈی ایس پی سلطان چانڈیو اور خواتین تھانے کے ایس ایچ او کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو لڑکی کے دعووں کی تحقیقات کر کے 3 دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔
مزید پڑھیں: دادو: بلیک میل کیے جانے پر ایم بی بی ایس کی طالبہ کی ’خودکشی‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے رپورٹ کا انتظار کیے بغیر فوراً تفتیش شروع کر دی ہے۔
یونیورسٹی کے رجسٹرار نے ایک پریس ریلیز میں پروین رند کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
رجسٹرار کا کہنا تھا کہ ان کے الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ اور ہاؤس افسران کو تقویض کمرے تبدیل کرنا چاہتی تھی لیکن پروین رند نے دوسرے کمرے میں منتقل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔