میکماسٹر یونیورسٹی کی تحقیق میں براہ راست نظام تنفس تک ویکسین پہنچانے کے مدافعتی میکنزمز پر روشنی ڈالی گئی۔
محققین کے مطابق چونکہ سانس کے ذریعے جسم کا حصہ بنائی جانے والی ویکسینز کے لیے پھیپھڑوں اور سانس کی اوپری نالی کو ہدف بنایا جاتا ہے جہاں سے نظام تنفس کے وائرسز سب سے پہلے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے وہ زیادہ ٹھوس مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتی ہیں۔
اس ویکسین کے پہلے مرحلے کے کلینکل ٹرائل پر ابھی کام جاری ہے جس میں ایسے صحت مند بالغ افراد میں نئی قسم کی ویکسین کے اثرات کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے جو پہلے ہی کووڈ ایم آر این اے ویکسینز کی 2 خوراکیں استعمال کرچکے ہیں۔
اس تحقیق میں جو نتائج بتائے گئے وہ جانوروں پر ویکسین کی آزمائش پر مبنی تھے۔
یہ ماہرین اس سے پہلے ٹی بی ویکسین ریسرچ پروگرام پر بھی کام کرچکے ہیں اور انہوں نے بتایا کہ ہم نے کافی برس قبل دریافت کیا تھا کہ پھیپھڑوں کو ویکسین پہنچانے سے نظام تنفس کو ٹھوس اور دیرپا تحفظ ملتا ہے جو انجیکشن کے ذریعے دی جانے والی ویکسین میں نظر نہیں آتا۔
واضح رہے کہ اس وقت دستیاب تمام کووڈ ویکسینز انجیکشن کے ذریعے جسم کا حصہ بنائی جاتی ہیں۔
میکماسٹر یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا کہ ہماری اولین ترجیح ایک ایسی ویکسین تیار کرنے ہے جو وائرس کی کسی بھی قسم کے خلاف مؤثر ثابت ہو۔
محققین کی جانب سے ویکسین کی تیاری کے لیے ایڈینو وائرس کی 2 اقسام پر مبنی ویکسینز کا موازنہ کیا جارہا ہے، یہ وائرسز ویکٹر کے طور پر کام کرکے ویکسین کو براہ راست پھیپھڑوں تک پہنچانے کا کام کریں گے۔
میکماسٹر کی ویکسینز کی دونوں اقسام کورونا وائرس کی بہت زیادہ متعدی اقسام کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوئی ہیں کیونکہ انہیں وائرس کے حصوں کو ہدف بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جن میں سے 2 حصوں میں بہت جلدی میوٹیشنز نہیں ہوتیں۔
اس وقت تمام کووڈ ویکسینز میں صرف اسپائیک پروٹین کو ہدف بنایا جاتا ہے جس کے بارے میں ثابت ہوچکا ہے کہ وہ بہت زیادہ میوٹیشن کی صلاحیت رکھنے والا حصہ ہے۔
محققین کو توقع ہے کہ اس ویکسین سے مستقبل کی وبا کے خلاف بھی کسی حد تک تحفظ مل سکے گا کیونکہ کسی وائرس کی وبا کے دوران اگر بہت تیزی سے بھی ویکسین تیار کی جائے تو پہلے ہی تاخیر ہوجاتی ہے۔