دنیا

انڈو۔پیسیفک خطے کا موجودہ صدی میں کلیدی کردار ہوگا، انٹونی بلنکن

امریکی سیکریٹری خارجہ میلبورن میں موجود ہیں جہاں پر وہ آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے ہم منصبوں کے ساتھ اجلاس میں شرکت کریں گے۔

امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکا کو یوکرین کے خلاف روسی جارحیت پر تشویش ہے لیکن اس کے باوجود امریکا کی انڈو پیسیفک ریجن میں طویل عرصے سے توجہ مرکوز ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے پی' کے مطابق انٹونی بلنکن، آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں موجود ہیں جہاں پر وہ آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے ہم منصبوں کے ساتھ اجلاس میں شرکت کریں گے۔

انڈو پیسیفک جمہوریت کے چار ممالک کا نام نہاد بلاک ’کواڈ‘ قائم ہے جسے چین کے علاقائی اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

انٹونی بلنکن نے آسٹریلیا پہنچنے کے بعد پہلے عوامی خطاب میں کہا کہ 'اس وقت دنیا میں کچھ دیگر معاملات چل رہے ہیں، آپ لوگوں نے کچھ معاملات کو نوٹس کیا ہوگا، ہمیں یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے حوالے سے کچھ چیلینجز درپیش ہیں جس کے لیے ہم 24 گھنٹے کام کر رہے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کسی اور سے زیادہ بہتر آگہی رکھتے ہیں کہ انڈو پیسیفک خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے موجودہ صدی پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کے مقابلے کیلئے اتحادیوں کے ساتھ گہرے تعلقات چاہتے ہیں، انٹونی بلنکن

امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ انڈو پیسیفک دنیا کا تیزی سے ترقی کرتا خطہ ہے جو کہ گزشتہ پانچ سال سے عالمی معاشی شرح نمو کا دو تہائی حصہ ہے اور دنیا کی نصف آبادی اس خطے میں بستی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس خطے میں ہونے والے معاملات دنیا کے لیے اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلی اور کووڈ 19 جیسے چیلنجز سے کوئی بھی ملک تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

انٹونی بلنکن نے کہا کہ ہمیں شراکت داریاں اور اتحاد قائم کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے، ہمیں اُن ملکوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی ضرورت ہے جو اپنی کوششوں، وسائل اور اپنے ذہن کو بروئے کار لاکر ان مسائل سے نبرد آزما ہو سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں آزاد اور کھلے معاشرے کے لیے مشترکہ وژن چاہیے جو ہمیں پیشرفت کرنے میں مدد کر سکے۔

انٹونی بلنکن کے دورے کو ایشیا میں امریکی مفادات کو تقویت دینے اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔

وہ فجی کا دورہ بھی کریں گے جبکہ شمالی کوریا کے اہم معاملات کے بارے میں جاپانی اور جنوبی کورین ہم منصبوں کے ساتھ ہوائی میں تبادلہ خیال کریں گے۔

آسٹریلیا کے وزیر خارجہ میریس پین، جو کہ کواڈ اجلاس کی صدارت کریں گے، نے کہا کہ اجلاس کے ایجنڈے میں کورونا ویکیسن کی تقیسم، سائبر اور اہم ٹیکنالوجیز، بدنیتی پر مبنی خطرناک اور غلط معلومات سے مقابلہ، دہشت گردی، میری ٹائم سیکیوریٹی اور موسمیاتی تغیر شامل ہیں۔

اس اجلاس میں بھارت کی نمائندگی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور جاپان کی نمائندگی وزیر خارجہ ہیاشی یوشیماسا کریں گے۔

مزید پڑھیں: امریکا، روس مذاکرات میں یوکرین کے معاملے پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق

آسٹریلیا کے وزیر خارجہ میریس پین نے کہا کہ روشن خیال جمہوری ممالک کے طور پر ہم انڈو پیسیفک خطے کے چھوٹے بڑے تمام ممالک کے ساتھ عملی تعاون کے لیے پُرعزم ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہر ملک اپنے اسٹریٹیجک فیصلے خود اور بغیر کسی دباؤ کے کرنے کے قابل ہو۔

بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے انٹونی بلنکن کے دورے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی جمہوریت پر طویل حملہ کرتے ہوئے عالمی نظام میں چین کے کردار کا دفاع کیا۔

ژاؤ لیجیان نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا کی نام نہاد جمہوریت بہت پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے، امریکا دوسرے ممالک کو امریکی جمہوریت کے معیار کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا ہے، وہ جمہوری اقدار کے برخلاف گروہوں کو جوڑ رہا ہے یہ جمہوریت کے ساتھ سراسر غداری ہے۔

اس بات کی توقع کی جارہی ہے کہ انٹونی بلنکن خاص طور پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کی ونٹر اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر ہونے والی ملاقات کے بعد چینی و روسی آمریت کے مابین بڑھتی ہوئی شراکت کے خطرات کے حوالے سے اظہار خیال کریں گے۔

امریکا کو امید تھی کہ شی جن پنگ، روس کی یوکرین کے ساتھ سرحد پر فوج کی موجودگی اور خطرات کے حوالے سے بات چیت کریں گے لیکن اس معاملے میں وہ بالکل خاموش ہیں۔

آسٹریلیا کے وزیر دفاع پیٹر ڈیوٹن نے روس اور چین کے اتحاد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین کی جانب سے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈیوٹن نے پارلیمان کو بتایا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری قوم کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک علاقائی سلامتی کے حوالے سے تباہ کن صورتحال کا سامنا ہے۔

انٹونی بلنکن کی فیملی کا تعلق سوتیلے باپ سمیوئل پِسار کے ذریعے میلبورن سے ہے جو کہ قانون دان اور امریکی صدارتی مشیر تھے، ان کا انتقال 2015 میں ہوا تھا۔

پولینڈ میں پیدا ہونے والے پسار جنگ عظیم دوئم کے دوران یتیم ہو گئے تھے، ان کی خالہ نے انہیں میلبورن میں دو انکل کے پاس دیکھ بھال کے لیے بھیج دیا تھا جنہوں نے 1930 میں ہجرت کی تھی۔

انٹونی بلنکن نے میلبورن کے لا اسکول کا دورہ کیا جہاں پر پسار بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا منتقل ہوگئے تھے۔